کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 590
مسرتوں کو ایسے انداز میں بیان کیا کہ کوئی شخص ان پر عیب نہ لگا سکا۔[1]مثنی رضی اللہ عنہ کا یہ ولولہ انگیز بیان آپ کی حسن قیادت اور وسعت حکمت پر واضح دلیل ہے۔ آپ نے ایسے پرخلوص اور محبت بھرے انداز میں اپنی بات رکھی کہ پورا اسلامی لشکر کامل محبت واطمینان سے آپ کا مطیع ہوگیا اور جب آپ اپنی فوج کی تیاریوں سے مطمئن ہوگئے تو کہا: جب میں تین مرتبہ تکبیر کہوں گا تو تم حملہ کے لیے بالکل تیار ہو جانا اور چوتھی تکبیر پر حملہ کر دینا۔ چنانچہ آپ نے جوں ہی پہلی تکبیر کہی دوسری طرف سے ایرانی فوج نے اچانک حملہ کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں حالانکہ ایرانی فوج عموماً اس طرح حملہ نہیں کرتی تھی لیکن معرکہ جسر میں مسلمانوں کو زیر کرنے میں انہیں جو کامیابی ملی تھی شاید اس نے ان کے دلوں سے مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کم کر دیا تھا۔ ایرانیوں نے حملے میں سبقت کی اور مسلمانوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ جنگ نے شدت پکڑی اور گھمسان کا رن پڑا۔ مثنی رضی اللہ عنہ جنگ میں برابر کے شریک تھے اور نہایت باریکی سے اپنی فوج پر نگاہ بھی رکھے ہوئے تھے۔ اس قدر گہری نگاہ کہ مسلمانوں کی صف میں خلل دیکھا تو وہاں ایک آدمی بھیجا کہ امیر لشکر تم کو سلام کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آج مسلمانوں کو رسوا نہ کرو، جو لوگ آگے بڑھے تھے سیدھے ہوگئے اور کہا ٹھیک ہے۔[2] پھر جب جنگ طویل ہوتی گئی اور خوب گرما گئی تو مثنی رضی اللہ عنہ نے انس بن ہلال سے کہا: اے انس! جب تم دیکھو کہ میں نے مہران پر حملہ کر دیا ہے تو تم بھی میرے ساتھ حملہ کر دو اور ابن مردی فہر سے بھی اسی طرح کہا، ان دونوں نے آپ کو خوش آئند جواب دیا، مثنی رضی اللہ عنہ نے مہران پر حملہ کر دیا اور اسے پیچھے دھکیلتے گئے یہاں تک کہ وہ اپنی فوج کے میمنہ میں ضم ہوگیا۔ مثنی رضی اللہ عنہ اپنے دشمن پر برابر دباؤ بڑھاتے رہے اور پھر دونوں افواج کے قلب کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی، ہر طرف گرد ہی گرد نظر آنے لگی، فوجی دستے میمنہ اور میسرہ میں اس طرح ٹکرائے کہ کسی کو اپنے امیر و قائد کی مدد کا موقع نہ مل سکا۔ نہ مسلمانوں کو اپنے امیر کا اور نہ ایرانیوں کو اپنے قائد کا۔ مسعود بن حارثہ جو مسلمانوں کی پیدل فوج کے امیر تھے کہنے لگے: اگر تم دیکھو کہ ہم قتل کر دیے گئے ہیں پھر بھی اپنی مہم سے پیچھے نہ ہٹنا، کیونکہ فوج تتر بتر ہو کر پھر اکٹھا ہو جایا کرتی ہے، تم اپنی صفوں سے مت ہٹنا اور اپنے پہلو میں لڑنے والے جاں باز کی طرح جان کی بازی کا مظاہرہ کرنا۔[3] پھر مسعود اور ان جیسے کئی مسلم قائدین زخم خوردہ ہو ہوکر گر پڑے جب مسعود نے دیکھا کہ مجھے زخم خوردہ دیکھ کر لوگ شکستہ دل ہو رہے ہیں تو کہا: اے بکر بن وائل کے مجاہدو! اپنے جھنڈوں کو بلند کرو اللہ تم کو بلند کرے گا۔ میرا شہید ہو جانا تمہیں شکستہ دل نہ بنائے۔ ادھر مثنی رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کی شہادت سے پہنچنے والے نفسیاتی جھٹکے کو محسوس کر رہے تھے انہوں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے للکارا: اے مسلمانو! میرے بھائی کی شہادت تمہیں خوفزدہ نہ کر دے۔ تمہارے بہترین جانباز ایسے ہی شہید کیے جاتے ہیں۔ انس بن ہلال نمیری بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑے اور وہ بھی شہید کر دیے گئے۔ مثنی رضی اللہ عنہ نے انہیں اور اپنے بھائی مسعود رضی اللہ عنہ کو اٹھایا اور
[1] العملیات التعرضیۃ الدفاعیۃ: نہاد عباس، ص : ۱۱۵۔