کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 582
نہ ہو۔ ابوعبید کی بات سن کر وہ سہم گئے اور اپنے بارے میں خطرہ محسوس کرنے لگے۔ ابوعبید نے کہا: کیا میں نے تم کو نہیں بتلایا کہ میں اس کھانے کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگانے والا ہوں جب تک کہ میرے ساتھ لڑنے والے میرے تمام مجاہدین کو یہی کھانا نہ مل جائے۔انہوں نے کہا: آپ کے لشکر کے تمام مجاہدین کو ان کے ٹھکانوں پر یہی کھانا شکم سیر کر کے کھلایا جا چکا ہے۔ پھر جب آپ نے اس کی تحقیق کر لی تو ان کی ضیافت قبول فرمائی۔ آپ نے کھانا خود بھی تناول فرمایا اور آپ کے ساتھ جو لوگ مہمان ہوا کرتے تھے انہیں بھی کھانے کے لیے بلا بھیجا۔ حالانکہ اہل فارس کی طرف سے ان کی بھی مہمان نوازی ہو چکی تھی۔ ہمیشہ آپ کے ساتھ کھانے والے رفقاء کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ابوعبید رحمہ اللہ کی خدمت میں انواع واقسام کے عمدہ ولذیذ کھانے پیش کیے گئے ہیں، وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ روزانہ کی طرح آج بھی کھانا ویسا ہی ہو گا اور جو کھانا انہیں پیش کیا گیا تھا اسے چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ جو آدمی انہیں کھانے کے لیے بلانے آیا تھا اس سے انہوں نے کہلوا دیا کہ جاؤ اور ہمارے امیر لشکر سے کہہ دو کہ ہمیں اب مزید کھانے کی خواہش نہیں ہے۔ امیر لشکر ابوعبید نے پھر ایک آدمی کو یہ کہلا کر بھیجا کہ یہاں شاہان عجم کے کھانوں کی ارزانی وفراوانی ہے، ہمارے پاس آجاؤ اور دیکھو کہ جسے تم کھا رہے ہو اس کے مقابلے میں اس کی کیا شان ہے۔[1] اس طرح خاکسار و صاحب کمال امیر لشکر نے دو مرتبہ عجمی جاگیرداروں کی ضیافت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور تیسری مرتبہ جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ جس طرح یہ لوگ میری ضیافت کرنا چاہتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر انداز میں میرے لشکر کے تمام افراد کو وہ یہی کھلا چکے ہیں تب آپ نے کھانا تناول فرمایا۔ مزیدبرآں تنہا کھانا پسند نہ کیا، بلکہ اپنے مہمانوں کو بلوایا اور ان سے کھانے کے لیے اصرار کیا، نوع بہ نوع کھانوں کا ذکر کیا تاکہ وہ بھی کھانے میں شریک ہو جائیں اور جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ بھی میری طرح جاگیرداران عراق کا عمدہ کھانا کھا رہے ہیں تب آپ نے لقمہ اٹھایا۔ یہ ہے بلند اخلاق اور عزت کا ایک نمونہ اور کیوں نہ ہو کہ اخلاق فاضلہ کامیاب حکومت کا ایک اہم عنصر ہوا کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے یہ مواقف ہمیں سامان عبرت دیتے ہیں کہ دیکھو وہ اخلاقی بلندی اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے کتنے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔[2] ۳: معرکہ باروسما ۱۳ہجری: اسلامی فوج ،ایرانی افواج کو سقاطیہ میں شکست دینے کے بعد سقاطیہ کے درمیان ’’باروسما‘‘ نامی ایک مقام پر ایرانیوں سے محاذ آرا ہوئی، نرسی کے میمنہ اور میسرہ پر اس کے دو ماموں زاد بھائی ’’بندویہ‘‘ اور ’’بیرویہ‘‘ تھے اور رستم ہزیمت کی خبر ملنے کے بعد جالینوس کو فوج دے کر ’’نرسی‘‘ کی مدد کے لیے روانہ کر چکا تھا۔ جب ابوعبید رحمہ اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو ’’نرسی‘‘ تک جالینوس کی مدد پہنچنے سے پہلے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ دونوں فوجوں میں
[1] کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک قصبہ ہے۔ [2] واسطہ کی سر زمین میں ’’کسکر‘‘ کا ایک سرحدی علاقہ ہے۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۲۷۲۔ [4] انتہائی عمدہ قسم کی کھجور کا نام ہے۔ (مترجم) [5] تاریخ الطبری: ۴/۲۷۲۔ [6] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۳۳۵۔