کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 581
بھاگ کر ’’کسکر‘‘[1] میں پناہ لی، یہاں کی فوجی قیادت کسریٰ کے خالہ زاد بھائی ’’نرسی‘‘ کے ہاتھ میں تھی۔ نرسی نے ابوعبید رحمہ اللہ سے پنجہ آزمائی کے لیے ان لوگوں سے بھر پور تعاون وتائید کی۔ ’’سقاطیہ‘‘[2] میں ان کی ابوعبید رحمہ اللہ سے معرکہ آرائی ہوئی، آپ نے ان کو ذلت آمیز شکست دی اور بہت کچھ اموال غنیمت اور کھانے پینے کی چیزیں حاصل ہوئیں۔[3] نرسی شکست خوردہ ہو کر وہاں سے بھاگ نکلا اور مسلمانوں نے اس کے لشکر و اراضی پر قبضہ کر لیا۔ اس کے خزانوں میں سے کافی بیش قیمت چیزیں مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔ اس معرکہ میں جس چیز کو پا کر مسلمان سب سے زیادہ خوش تھے وہ ’’نرسیان‘‘[4] کھجور کے درخت تھے۔ ’’نرسی‘‘ خاص طور پر اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ یہ کھجوریں شاہان ایران کی من بھاتی کھجوریں تھیں۔ مسلمانوں نے وہ کھجوریں آپس میں تقسیم کیں اور عراق کے کاشت کاروں کو بھی کھلائیں، نیز اس کا خمس عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا اور لکھا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی غذاؤں سے نوازا ہے جسے شاہان ایران اپنے لیے مخصوص رکھتے تھے، ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی اسے دیکھیں اور اللہ کے فضل وکرم کو یاد کریں۔[5] اس واقعہ میں ہمیں مسلمانوں کے ایک عظیم اخلاقی ومثالی کردار کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک زمانے سے انسانی حقوق سے محروم اور زخم خوردہ جذبات وشکستہ دل کسانوں کو ان کی انسانی عظمت کا احساس دلایا اور انہیں ان کے بادشاہوں کا شاہی کھانا کھلایا، جسے کھانا ان کے لیے اس سے پہلے حرام ہوتا تھا۔ گویا کہ مسلمان فاتحین زبان حال سے گویا تھے کہ ’’اس عظیم دین اسلام کو قبول کر لو جو تمہارے مرتبہ کو بڑھاتا ہے اور شاہان عجم کی غصب کردہ تمہاری انسانی کرامت تمہیں واپس دلاتا ہے۔‘‘[6] ابوعبید کسکر میں قیام پذیر ہوئے اور ایرانی فوج کو پیچھے دھکیلنے نیز جن کسانوں نے مسلمانوں کا عہد وپیمان توڑ کر اہل فارس کی مدد کی تھی انہیں سزا دینے کے لیے اپنی فوج اطراف وجوانب میں پھیلا دی، اس طرح ’’کسکر‘‘ کے علاقہ میں مسلمان بھاری پڑ گئے۔ اس فتح ونصرت الٰہی کے بعد ایرانی علاقوں کے کچھ والیان ریاست وجاگیرداران ابوعبید رحمہ اللہ کے پاس صلح کی خواہش لے کر آئے، ان میں سے دو والیان ریاست نے اپنا اعلیٰ وعمدہ کھانا ابوعبید رحمہ اللہ کی ضیافت میں پیش کیا اور کہا: یہ آپ کی ضیافت ہے، اس کے ذریعہ ہم آپ کی قدر اور عزت وتکریم کرنا چاہتے ہیں۔ ابوعبید رحمہ اللہ نے پوچھا: کیا تم نے میرے لشکر کے تمام لوگوں کی اسی طرح اعزاز واکرام سے ضیافت کی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: ابھی تو ہم سب کے ساتھ ایسا نہیں کر سکے ہیں لیکن ضرور ایسا کریں گے۔ ابوعبید رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے ایسے کھانوں کی کوئی ضرورت نہیں جو ہمارے تمام سپاہیوں کے لیے کافی
[1] حرکۃ الفتح الإسلامی: شکری فیصل ص ۷۲۔ [2] الکامل فی التاریخ: ۲/۸۷۔ [3] التاریخ الإسلامی: ۱۰/۳۳۴۔