کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 578
امور میں جلد باز نہ ہوتے تو انہی کو تمہارا امیر بناتا، لہٰذا ابوعبید امیر ہوں گے اور سلیط وزیر۔ چنانچہ لوگوں نے سمع وطاعت کا مظاہرہ کیا۔[1] اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ابوعبید رحمہ اللہ کو سب کا امیر بنا دیا تھا، وہ صحابی نہ تھے، تو لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے کسی صحابی کو ہمارا امیر کیوں نہیں بنایا؟ آپ نے جواب دیا: میں اس کو امیر بناؤں گا جس نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہا، بلا شبہ اس دین کی نصرت و تائید میں آپ لوگ اوروں پر سبقت لے گئے، لیکن اس معاملے میں انہوں نے تم سے پہلے رضا مندی ظاہر کی ہے، پھر آپ نے ابوعبید رحمہ اللہ کو بلایا اور انہیں اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کی اور کہا کہ تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ بھلائی کرنا، صحابہ کرام سے مشورہ لیتے رہنا اور سلیط بن قیس کو مشورہ میں نہ بھولنا، وہ میدان جنگ کے آزمودہ کار آدمی ہیں۔[2] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوعبید رحمہ اللہ کو مزید نصیحتیں کرتے ہوئے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مشوروں پر عمل کرنا، ان کو اپنے معاملات میں شریک رکھنا، جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ صبر وتحمل سے کام کرنا کیونکہ یہ جنگ ہے اور جنگ کے لیے ایسا صبر آزما اور متحمل مزاج آدمی مناسب ہوتا ہے جو موقع اور نزاکت کو پہچانتا ہو۔ میں نے سلیط کو صرف اس لیے امیر نہیں بنایا کہ وہ جنگی معاملات میں جلد باز واقع ہوئے ہیں اور جب تک کھلی ضرورت نہ ہو جنگ میں جلد بازی نقصان دہ ہوتی ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ جلد باز نہ ہوتے تو انہی کو امیر بناتا۔[3] پھر فرمایا: تم ایسے علاقے میں جا رہے ہو جو مکر، دھوکا، خیانت اور غرور و تکبر سے بھرا پڑا ہے۔ ایسے لوگوں میں جا رہے ہو جو شر وفساد کرتے کرتے اسی کے ماہر ہوگئے ہیں۔ خیر و اصلاح کو پس پشت ڈال دیا ہے، گویا کہ وہ اسے جانتے ہی نہیں، لہٰذا ان سے چوکنا رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا اور راز سے کسی کو واقف نہ کرانا کیونکہ راز دار جب تک راز کو راز میں رکھتا ہے وہ محفوظ ہوتا ہے اور کسی ناخوشگوار حالت کا سامنا نہیں کرتا اور جب اپنے راز فاش کر دیتا ہے تو وہ خود کو گنوا دیتا ہے۔[4] اس کے بعد آپ نے مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عراق جانے اور مزید افواج کے انتظار کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ جو مرتدین اسلام صدق دل سے توبہ کر کے اسلام میں دوبارہ داخل ہو چکے ہیں انہیں اپنے ساتھ لے لیں اور دشمن سے معرکہ آرائی میں انہیں بھی شریک کر لیں۔ مثنی رضی اللہ عنہ ان سب کو لے کر تیزی سے آگے بڑھے اور ’’حیرہ‘‘ پہنچے اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ عراق، فارس اور شام کے محاذوں پر برابر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اسلامی افواج کو سامان رسد بھیجتے، انہیں اپنی تعلیمات، احکامات اور رہنمائیوں سے نوازتے رہتے، در پیش اور متوقع معرکوں کی منصوبہ بندی کرتے اور ان کی تنفیذ کی نگرانی وذمہ داری اپنے ہاتھ میں رکھتے۔
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۲۶۔ [2] الفتوح: ابن أعثم ۱/۱۶۴، الأنصار فی العصر الراشدی: ص ۲۱۶۔