کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 570
تربیت اپنے پیغام کو عام کر سکے، جب کہ دوسری طرف خالد رضی اللہ عنہ یہ سوچتے تھے کہ جو جیالے مجاہدین آپ کے ساتھ میدان جنگ میں برسر پیکار رہتے ہیں اور محض اللہ کی رضا کے لیے ان کی نیتیں شاید ابھی خالص نہیں ہیں، مال کے ذریعہ ان کی ہمت افزائی کرنے، ان کی عزیمت میں پختگی لانے اور ان کے جذبات کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔[1] اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کے بالمقابل کمزور مہاجرین مال کے زیادہ مستحق ہیں، اسی لیے جب جابیہ میں لوگوں کے سامنے خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا عذر بیان کیا تو کہا: ’’میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ اس مال کو بے بس مہاجرین میں تقسیم کریں لیکن وہ طاقتوروں کو دیتے تھے۔‘‘[2] بہر صورت سیّدناعمر اور خالد رضی اللہ عنہما دونوں کا اپنا اپنا اجتہاد تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے جن امور کا ادراک کر لیا خالد رضی اللہ عنہ اس کا نہیں کر سکے۔[3] سیّدناعمر اور خالد رضی اللہ عنہما کے سیاسی منہج کا اختلاف: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس بات پر بضد تھے کہ آپ کے گورنران ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں آپ سے اجازت لینے کے بعد ہی کوئی اقدام کریں، جبکہ خالد رضی اللہ عنہ کا سیاسی منہج یہ تھا کہ مجاہدانہ و فوجی کارروائیوں کے بارے میں وہ مطلق آزاد رہیں، کیونکہ انہیں اس بات پر یقین تھا کہ موقع پر موجود شخص حالات کی نزاکت کو جس قدر سمجھ سکتا ہے، غائب شخص نہیں سمجھ سکتا۔[4] اور شاید یہ بات بھی ایک سبب رہی ہو کہ جدید دستوں کے لیے بھی میدان ملے تاکہ وہ مسلمانوں کو خالد، مثنی اور عمرو بن عاصرضی اللہ عنہم جیسے کئی دیگر سپہ سالار فراہم کر سکیں اور لوگوں کو اس بات کا احساس ویقین ہو جائے کہ نصرتِ الٰہی کسی ایک فرد کے ساتھ مرہون نہیں ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔[5] سیّدناخالد رضی اللہ عنہ کی معزولی پر اسلامی معاشرہ کا رد عمل: اسلامی معاشرہ نے خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کی قرار داد کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ کیونکہ کسی کو منصب پر فائز کرنا اور اسے معزول کرنا خلیفہ ہی کا حق ہے۔ چنانچہ شرعی نظم و اطاعت کے تقاضوں اور خلافت کے تئیں اس عقیدہ واقرار پر سب متفق رہے کہ معزولی ومنصب نوازی فقط خلافت کا حق ہے۔ روایت ہے کہ رات کی تاریکی میں عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے، راستہ میں علقمہ بن علاثہ کلابی سے ملاقات ہوگئی، عمر رضی اللہ عنہ کافی حد تک خالد رضی اللہ عنہ کے ہم شکل تھے۔ علقمہ نے سمجھا کہ شاید یہ خالد رضی اللہ عنہ ہیں اور کہنے لگے: خالد! اس نے تم کو معزول کر دیا، یہ محض اپنی بخیلی کی وجہ سے کیا ہے، میں اور میرا چچا زاد بھائی، ہم دونوں ان کے پاس چیز طلب کرنے گئے تھے اور جب انہوں نے تمہیں معزول کر دیا تو اب ان سے کچھ نہیں طلب کریں گے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین: حمدی شاہین ص ۱۴۹۔ [2] عبقریۃ عمر: ص ۱۵۸۔ [3] حروب الإسلام فی الشام، باشمیل، ص: ۵۶۶۔