کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 568
صنعت فلم یصنع کصنعک صانع وما یصنع الأقوام فاللّٰه یصنع [1] ’’یقینا تم نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے تمہاری طرح کوئی نہ کر سکا۔ (لیکن معلوم ہے کہ) قومیں جو کچھ بھی کارنامے انجام دیتی ہیں اللہ ہی حقیقت میں اس کا کارساز ہے۔‘‘ سیّدناخالد رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے آپ کے بارے میں اپنا گلہ شکوہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ہے اور اے عمر! اللہ کی قسم! میرے معاملہ میں آپ اچھا نہیں کر رہے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: پھر تمہارے پاس یہ مال کہاں سے آگیا؟ خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: مال غنیمت سے ملے ہوئے میرے حصے میں سے ساٹھ ہزار سے جتنا زیادہ ہو وہ آپ لے لیں۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے حساب کیا تو خالد رضی اللہ عنہ کے پاس صرف بیس ہزار زیادہ نکلے اور پھر آپ نے اسے بیت المال میں داخل کر لیا۔ فرمایا: اے خالد! اللہ کی قسم تم مجھ پر مہربان ہو اور تم میرے نزدیک بہت محبوب ہو آج کے بعد تم مجھے کسی چیز پر ملامت نہ کرنا۔[2] اور پھر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی پر معذرت کا خط بھجوا دیا، جس کا عنوان تھا: ’’میں نے خالد کو ناراضی اور خیانت کی پاداش میں معزول نہیں کیا، بلکہ اس لیے کہ لوگ ان کے ذریعہ فتنہ میں واقع ہو رہے تھے، میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ انہی کی ذات پر بھروسا کر لیں اور ان کی وجہ سے آزمائش میں پڑ جائیں۔ میں نے مناسب سمجھا کہ لوگ جان لیں کہ اللہ ہی حقیقی کارساز (فتح دینے والا) ہے، وہ فتنہ کا نشانہ نہ بنیں۔‘‘[3] ۳: سیّدناخالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کے اسباب کا اجمالی بیان وبعض فوائد: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت وسیاست کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی چند اہم اسباب کی بنا پر عمل میں آئی تھی، مثلاً: توحید کی حفاظت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ: ’’لوگ ان کے ذریعہ فتنے میں واقع ہو رہے تھے، میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ انہی کی ذات پر بھروسہ کر لیں اور ان کی وجہ سے آزمائش میں پڑ جائیں۔‘‘ یہ قول اس بات کا غماز ہے کہ آپ کو خالد رضی اللہ عنہ کی ذات سے لوگوں کے فتنے میں واقع ہونے کا اندیشہ تھا، وہ یہ کہ لوگ کہیں ایسا نہ گمان کر لیں کہ یہ فتوحات اور مدد خالد رضی اللہ عنہ ہی کے ساتھ ہیں اور ان کا ایمان ویقین اس بات پر کمزور ہو جائے کہ مدد و فتوحات تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، سیّدناخالد رضی اللہ عنہ اسلامی فوج کے قائد رہیں یا نہ رہیں اور آپ کی یہ احتیاطی کارروائی آپ کی کوشش وتمنا کے بالکل موافق تھی، جس میں آپ اپنے پورے حکومتی ادارے کو خالص اسلامی عقائد والی سلطنت میں رنگ دینا چاہتے تھے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب کہ عقیدہ اور عقیدہ کی قوت کے
[1] تاریخ الطبری: ۵/۴۲۔ [2] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۲۴۔ [3] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۴۷، الکامل فی التاریخ: ۲/۱۵۶۔ [4] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۴۷۔ [5] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۴۷۔