کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 565
سے خطرناک مواقع پر بھی پیش قدمی کرنے اور جان جوکھوں میں ڈالنے سے بالکل نہیں گھبراتے اور باوجودیکہ خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بہت اصرار کیا پھر بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو معزول نہ کیا، وہ شاید اسی یقین واعتماد کی بنا پر کہ خالد رضی اللہ عنہ فوجی قوت اور جنگی صلاحیت کے شاہکار ہیں اور امت مسلمہ کے بہادروں میں گنے چنے مخصوص افراد ہی ان جیسی ہستیوں کے متبادل ہو سکتے ہیں۔[1] اس طرح خالد رضی اللہ عنہ ، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں چار سال تک کام کرتے رہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کبھی ایک مرتبہ بھی ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے کوئی اختلاف و معارضہ نہیں ہوا اور خالد رضی اللہ عنہ پر معزولی کے اثر کو کم کرنے میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے فضل عظیم کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ کے دل کو پالش کرنے اور صاف کرنے میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے عزت دینے، ان کے مقام ومرتبہ کو پہچاننے، ان کی بات کو فوقیت دینے اور مشورہ پر عمل کرنے نیز امارت سنبھالنے کے بعد اسلامی جنگوں میں انہیں پیش پیش رکھنے کا اتنا عمدہ اثر ہوا کہ اس نے انہیں میدان جنگ کا ایک بے مثال بہادر انسان بنا دیا۔ دمشق، قنسرین اور فحل کے معرکوں میں آپ کے فاتحانہ کارنامے آپ کی اس اعلیٰ روحانی تربیت کے سچے گواہ ہیں جس کے ذریعہ آپ نے معزولی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ آپ معزولی سے قبل اور بعد دونوں حالتوں میں سیف اللہ ہی بن کر زندہ رہے۔[2] اس مقام پر تاریخ نے ہمارے لیے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا وہ زریں قول بھی محفوظ رکھا ہے جسے آپ نے خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کے وقت ان کی ہمدردی میں کہا تھا۔ آپ نے کہا تھا: ’’میں دنیا کی بادشاہت نہیں چاہتا اور نہ دنیا کے لیے کام کرتا ہوں، آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں بالآخر اس کا انجام فنا ہے، ہم دونوں آپس میں بھائی ہیں اور اللہ کے حکم کو قائم کرنے والے ہیں۔ کسی آدمی کے لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں کہ اس پر اس کا دینی بھائی حاکم ہو۔ والی (گورنر) جانتا ہے کہ خطرات وہلاکتوں کے وقت وہی آزمائش سے زیادہ قریب اور غلطیوں میں واقع ہونے والا ہے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ جسے محفوظ کر دے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں‘‘[3] اور جس وقت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی امارت کی ماتحتی میں سیّدناخالد رضی اللہ عنہ سے جنگی مہم کے نفاذ کا مطالبہ کیا تو خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’میں ان شاء اللہ اس کے لیے حاضر ہوں، میں آپ کے حکم کا منتظر تھا۔‘‘ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوسلیمان! آپ کو کچھ حکم دیتے ہوئے میں شرما رہا تھا، تو خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر میرے اوپر ایک چھوٹا بچہ بھی امیر بنا دیا جاتا تو میں اس کی اطاعت کرتا، پھر بھلا آپ کی مخالفت کیوں کر سکتا ہوں، حالانکہ آپ کا ایمان مجھ سے پہلے ہے، آپ مجھ سے پہلے اسلام لائے، اسلام میں سبقت لے جانے والوں کے ساتھ آپ نے سبقت کی اور جلدی ایمان قبول کرنے والوں کے ساتھ ایمان قبول کرنے میں جلدی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’امین‘‘ کا لقب دیا، میں آپ کے مقام ومرتبہ کو
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۵۱۱۔ [2] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۳۲۔ [3] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۳۲، ۳۳۳۔ [4] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۲۱۔