کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 564
آپ نے خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا۔[1] پھر عمرفاروق، خالد رضی اللہ عنہما کو منصب قبول کرنے کو کہتے تھے تو وہ یہی کہتے تھے کہ میں خود جیسا مناسب سمجھوں گا وہی کروں گا لیکن عمر رضی اللہ عنہ ماننے سے انکار کر دیتے اور منصب دینے سے رک جاتے۔[2] چنانچہ معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو حکومتی سیاست اور اس نقطہ نظر سے معزول کیا تھا کہ حاکم اپنی پوری سلطنت کا ذمہ دار اعلیٰ ہے اور اسے تمام تر ملکی معاملات میں تصرف کا اختیار حاصل ہے اور حاکم کی سیاسی زندگی میں اس طرح کا واقعہ کسی کے ساتھ اور کسی وقت بھی پیش آنا ایک فطری چیز ہے۔ پس خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی میں بھی کوئی ایسی انوکھی چیز ظاہر نہیں ہوئی کہ اس کے اسباب کی وضاحت کے لیے غیر مستند روایات، فکری انحرافات اور ظن و وہم پر مبنی رجحانات کا سہارا لیا جائے اور ان کے متعلق من مانی رائے قائم کی جائے۔ ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایسے دور میں مسلمانوں کے خلیفہ بنے کہ اس میں لوگ کامل انسان تھے، فیض نبوت کے تربیت یافتہ تھے اور آپ کے اولین حقوق میں یہ چیز شامل تھی کہ جو امیر و گورنر آپ کے حکومتی وسیاسی نظریہ سے اتفاق رکھتا ہو آپ اسے منتخب کر لیں اور امت مسلمہ جب تک اعلیٰ صلاحیتوں سے مالا مال ہے تب تک آپ اس پر حکومت کریں کیونکہ کسی بھی حاکم وافسر کو اپنے منصب پر ہمیشہ باقی رہنے کا حق نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ حاکم وقت اور اس کے ماتحت افسران کے سیاسی طرز عمل میں اتفاق نہ ہو اور حاکم وقت کا کوئی متبادل بھی نہ ہو۔ بہرحال تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو توفیق الٰہی حاصل تھی اور اپنی مذکورہ سیاست میں ان کو بے نظیر کامیابی ملی۔ ایک کو معزول کیا تو فوراً دوسرے کو ذمہ دار بنایا اور جسے ذمہ دار بنایا وہ معزول کردہ شخصیت سے کم صلاحیت کا حامل نہ تھا۔ درحقیقت یہ سب کچھ اسلام کی روحانی تربیت کا نتیجہ تھا جس کی اساس ہی اس بات پر قائم ہے کہ وہ ہمیشہ اس امت مسلمہ کو فدائی قوتیں اور اعلیٰ سیاسی صلاحیتیں فراہم کرتی رہے۔[3] خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی معزولی کے حکم نامے کو بغیر کسی اعتراض کے نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ہاتھوں سے ’’قنسرین‘‘ فتح کرایا۔ پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو وہاں کا امیر بنا دیا اور امیرالمومنین کے نام ’’قنسرین‘‘ کی فتح اور اس میں خالد رضی اللہ عنہ کے فاتحانہ کارنامے کے تذکرہ پر مشتمل ایک خط لکھا۔ خط پڑھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خالد نے اپنے آپ کو خود ہی امیر بنا لیا ہے، اللہ تعالیٰ ا بوبکرپر رحم فرمائے، وہ مجھ سے زیادہ مردم شناس تھے۔[4] گویا عمرفاروق رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ خالد رضی اللہ عنہ بہادری وجانبازی اور حرب و جنگ کے جن فنون وصلاحیتوں سے فطری طور پر نوازے گئے ہیں ان کے لیے انہوں نے خود کو وقف کر دیا ہے اور اسی لیے خطرناک
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۱۵۔ [2] التاریخ الاسلامی: ۱/۱۴۶۔ [3] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۳۱۔ [4] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۳۲۔ [5] خالد بن ولید: صادق عرجون ص ۳۳۲۔