کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 560
جائیداد ہونے کی صورت میں اسے تقسیم کرا لیتے اور کبھی مصلحت سمجھتے تو پوری جائداد لے لیتے۔[1] بسا اوقات والیان ریاست کے اقرباء و رشتے داروں کا مال بھی تقسیم کرا لیتے تھے بشرطیکہ آپ کے سامنے اس اقدام کی کوئی معقول وجہ ہوتی چنانچہ آپ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے مال سے آدھا حصہ لے لیا تھا تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا اور کہا: میں تو آپ کی کسی ذمہ داری پر مامور نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا: لیکن تمہارا بھائی تو اسلامی بیت المال اور ’’ابلہ‘‘ کی کسٹم آمدنی کا ذمہ دار ہے۔ وہ تمہیں بطور قرض مال دیتا ہے تاکہ تم اس سے تجارت کرو۔[2] ۷: زبانی اور تحریری ڈانٹ: جناب عمر رضی اللہ عنہ کے گورنر جب آپ کے پاس اکٹھے ہوتے تو آپ ان کے بے جا تصرفات پر انہیں سختی سے ڈانٹتیتھے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کئی مرتبہ ڈانٹ پلائی، اسی طرح عیاض بن غنم، خالد بن ولید اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بھی ڈانٹا۔[3] آپ کی حکومت میں آپ کی تحریری ڈانٹ پلانے کی بہت سی مثالیں ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کے ایک گورنر کے پاس کچھ لوگ آئے، انہوں نے عربوں کو عطیات سے نوازا اور غلاموں کو نہیں دیا تو آپ نے ان کو خط لکھ کر ڈانٹ پلائی: ’’حمد وصلاۃ کے بعد! آدمی کے برا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ والسلام‘‘[4] تادیبی کارروائیوں کی مذکورہ تمام مثالوں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والیان ریاست حکومتی محاسبہ اور مختلف شکل کی تادیبی کارروائیوں سے بالاتر نہ تھے۔ دور نبوی کے بعد خلافت راشدہ نے عدل ومساوات کا جو تابناک منظر پیش کیا پوری انسانیت نے کبھی اسے دیکھا بھی نہ تھا اور اسی بے لاگ عدل وانصاف ہی نے دنیا کے سامنے اسلامی تہذیب و تمدن کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔[5] حکومتی مشکلات وپیچیدگیوں سے متعلق بحث و مباحثہ کے بارے میں آزادی کا جو تصور بھی ہمارے ذہنوں میں آسکتا ہے وہ ساری آزادیاں خلیفہ اور ان کے گورنران کے بحث و مباحثہ میں موجود تھیں۔ والیٔ ریاست خلیفہ وقت کی قوت واقتدار سے کبھی خوفزدہ نہ ہوتا تھا، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے شام کا دورہ کیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ ایک جلوس لے کر آپ کا استقبال کیا اور جب دیکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے تو اپنے گھوڑے سے اترے اور امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور کہا: ’’السلام علیکم!‘‘ لیکن عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے اور جواب نہ دیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ، امیر المومنین کے اونٹ کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے، وہ موٹے آدمی تھے، چلتے چلتے ہانپنے لگے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ نے اسے تھکا دیا اگر
[1] تاریخ المدینۃ: ۳/ ۸۱۷، ۸۱۸، الولایۃ علی البلدان: ۲/۱۳۰۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۲/۱۳۰۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۲/۱۳۰۔ [4] الفتاوی: ۲۸/ ۱۵۷۔