کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 557
امیر ریاست کو مجاہدین کے ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو کہا: میں تم سے زور دے کر کہتا ہوں کہ تم نے جو کچھ بھی غلطیاں اور گناہ کیے ہیں ان سے مجھے آگاہ کر دو۔ وہ لوگ اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کرنے لگے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا: وہ برباد ہو، آخر اسے کیا ہوگیا ہے؟ جس چیز کو اللہ نے پردہ کی چادر میں رکھا ہے وہ اسے پھاڑنا چاہتا ہے؟ اللہ کی قسم وہ میرا عامل کبھی نہیں بن سکتا۔[1] اسی طرح جب آپ نے اپنے ایک گورنر کے بارے میں سنا کہ وہ اپنے شعری کلام میں شراب سے مثالیں دیتا ہے تو اس پر سخت غصہ ہوئے اور عہدہ سے معزول کر دیا۔[2] ۳: والیان ریاست کے گھروں کے کچھ حصوں کو گرا دینا: سیّدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ یہ کارروائی انہی گھروں کے ساتھ کرتے تھے جن میں شرعی مخالفت پاتے۔ آپ چاہتے تھے کہ گورنران کے مکانات بغیر دروازوں اور بغیر پردوں کے رہیں چنانچہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے سنا کہ انہوں نے اپنے گھر میں دروازہ لگوایا ہے تو ان کے پاس محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اس دروازے کو آگ لگا دیں۔[3] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دروازہ لگانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا گھر بازار سے بالکل قریب تھا اور بازار کے شور وہنگامے سعد رضی اللہ عنہ کو تکلیف دیتے تھے تو انہوں نے دروازہ لگوا لیا تھا تاکہ وہ ہنگامے اور آوازیں آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو سعد رضی اللہ عنہ کے گھر اور دروازے کے بارے میں خبر مل گئی اور سنا کہ لوگ اسے ’’قصر سعد‘‘ (سعد کا محل) کہتے ہیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کوفہ بھیجا اور کہا: سیدھا اس کے محل پہنچو اور اس کے دروازے کو آگ لگا دو پھر واپس آجاؤ چنانچہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوفہ پہنچے، لکڑیاں خریدیں اور محل تک آئے پھر دروازے کو آگ سے جلا دیا۔[4] ابن شبہ روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک کام کا ذمہ دار بنا کر بھیجا پھر آپ نے سنا کہ ان کی بیوی اپنے گھر کو بہت رنگ روغن کرتی ہے تو آپ نے مجاشع رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’عبداللہ امیرالمومنین کی طرف سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نام… سلام علیک… اما بعد! مجھے خبر ملی ہے کہ ’’خضیراء‘‘ اپنے گھر کی بہت تزئین کرتی ہے لہٰذا جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو اس خط کو ہاتھ سے زمین پر رکھنے سے پہلے اس کے دلکش پردوں کو پھاڑ دو۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ مجاشع رضی اللہ عنہ کے پاس جب خط پہنچا تو ان کے پاس اور کئی لوگ بیٹھے تھے۔ آپ نے خط کو غور سے پڑھا، لوگوں کو محسوس ہوگیا کہ شاید کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ چنانچہ خط کو ہاتھ میں دبایا اور لوگوں سے کہا: اٹھیے چلیے، وہ لوگ اٹھے اور آپ کے ساتھ چل پڑے، اللہ کی قسم انہیں بالکل نہیں معلوم تھا کہ وہ کس کام کے لیے جا رہے ہیں۔ آپ ان کو لے کر اپنے گھر کے دروازے پر آئے پھر خود گھر میں داخل ہوئے۔ داخل ہوتے ہی بیوی سے
[1] تاریخ المدینۃ: ۳/۸۱۳، یہ خبر سنداً صحیح ہے۔ الفاروق الحاکم العادل: ص ۱۱۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۲/۱۲۷، الأموال: ابی عبید، ص ۶۳،۶۴۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۲/ ۱۲۶۔۱۲۷۔