کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 547
ولید رضی اللہ عنہ مشغول تھے۔ واضح رہے کہ جب آپ ان (گورنران وافسران) کی تحقیق و تفتیش میں نکلتے تھے تو اپنے ساتھ ایک آدمی لے کر اچانک ان کے گھر پہنچتے، وہ آدمی گورنر کا دروازہ کھٹکھٹاتا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ خود اندر آنے کی اجازت مانگتا، انہیں نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اجازت لینے والے کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں۔ اس طرح جب عمر رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوجاتے تو دقت نظر سے گھر کے ایک ایک سامان کا جائزہ لیتے اور ہر چیز کی جانچ پڑتال کر تے۔[1] ایک مرتبہ آپ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ کھانے میں متنوع غذائیں استعمال کرتے ہیں تو آپ نے شام کے کھانے کے وقت ان کے گھر پہنچنے کا ارادہ کیا اور بالکل کھانے کے وقت پہنچے۔ جب ان کا کھانا دیکھا تو انہیں کھانے میں اسراف کرنے سے منع کیا۔[2] آپ نے تحقیق و تفتیش کے لیے صرف انہی دوروںپر بس نہ کی بلکہ اس کے لیے دوسرے طریقے بھی اختیار کیے مثلاً یہ کہ بسا اوقات والیان ریاست کے پاس بہت زیادہ مال بھیجتے اور اس کے پیچھے ہی اپنے جاسوسوں کو بھی بھیجتے تاکہ یہ معلوم کریں کہ ہمارے گورنران وحکام ملکی خزانے میں کس طرح تصرف کرتے ہیں چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پانچ سو (۵۰۰) دینار بھیجے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں پاتے ہی ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔ ان کی بیوی کہنے لگیں: ’’اللہ کی قسم ہمارے گھر میں دیناروں کی آمد سے ہمیں نفع سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ہمارے پاس نماز پڑھنے کے لیے ایک پرانا کپڑا تھا، ابوعبیدہ نے اسے پھاڑ ڈالا اور اس میں دیناروں کو بھر بھر کر ضرورت مندوں تک پہنچانا شروع کر دیا، سارے دینار ان پر تقسیم کر دیے، کچھ باقی نہ بچا۔‘‘[3] عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے سفر میں بالکل یہی طریقہ اپنے بعض دوسرے گورنران کے ساتھ اپنایا۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نے صرف دوران سفر اپنے گورنران کو جانچنے و پرکھنے پر اکتفا کیا ہو بلکہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ انہیں مدینہ طلب کرتے اور ان کے کھانے پینے اور لباس پہننے کے انداز پر نگرانی کرنے کے لیے کسی کو مقرر کر دیتے۔ آپ کبھی کبھار خود یہ کام کیا کرتے تھے۔[4] ۷: سرکاری دستاویزات اور فائلوں کی حفاظت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس بات کی پوری کوشش کرتے تھے کہ ریاستوں سے متعلق مخصوص کاغذات اور اسلامی خلافت کی عمومی دستاویزات مکمل طور پر محفوظ رہیں۔ خاص طور پر والیان ریاست اور مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے درمیان معاہدات ومصالحت کی فائلیں محفوظ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے تاکہ فریقین میں سے
[1] الطبقات ابن سعد: ۳/۲۲۲۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/۱۸، الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۶۱۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۶۱۔