کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 546
’’جس کے ساتھ اس کے خلاف برتاؤ ہوا ہو وہ کھڑا ہو جائے اور بتائے۔‘‘ اس وقت پورے حجاج کے جم غفیر سے صرف ایک آدمی کے علاوہ کوئی دوسرا کھڑا نہ ہوا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ والیان ریاست عدل پرور و انصاف پسند تھے اور ان کی رعایا ان سے خوش تھی اور جو آدمی کھڑا ہوا تھا اس نے کہا کہ: آپ کے فلاں عامل نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عامل سے اس کی وجہ دریافت کیا لیکن عامل سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ آپ نے اس آدمی سے کہا: اٹھو اور ان سے بدلہ لو۔ درمیان میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے امیرالمومنین! اگر آپ نے ایسا کیا تو ایسے معاملات کی کثرت ہو جائے گی اور ایک سنت چل پڑے گی جسے آپ کے بعد آنے والے نافذ کریںگے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں بدلہ نہ دلواؤں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے خود اپنی ذات سے بدلہ دلوایا؟ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اجازت دیجیے ہم اسے راضی کر لیں۔ آپ نے فرمایا: لے جاؤ اسے راضی کر لو۔ چنانچہ دو سو دینار (یعنی ہر کوڑے پر دو دینار) کے بدلے اس آدمی کو راضی کر لیا۔[1] ۶: اسلامی ر یاستوں کا تحقیقاتی دورہ: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی شہادت سے پہلے یہ سوچا کرتے تھے کہ عمال کی نگرانی، رعایا کی خبر گیری اور حکومت کی گوناگوں وکثیر معاملات میں اطمینان طلبی کا تقاضا ہے کہ میں بذات خود ریاستوں کا تحقیقاتی دورہ کروں چنانچہ آپ نے فرمایا: ان شاء اللہ اگر میں زندہ رہا تو پورے ایک سال اپنی رعایا کا دورہ کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں کی کچھ ضرورتیں ہیں جو مجھ تک نہیں پہنچتی ہیں۔ ان کے افسران ان کی ضرورتیں مجھ تک نہیں پہنچاتے اور وہ خود مجھ تک نہیں پہنچ پاتے۔ میں شام جاؤں گا اور وہاں دو مہینے قیام کروں گا پھر الجزیرہ جاؤں گا اور وہاں دومہینے قیام کروں گا، پھر کوفہ جاؤں گا اور وہاں دو مہینے قیام کروں گا، پھر بصرہ جاؤں گا اور وہاں دو مہینے قیام کروں گا۔ پھر اللہ کی قسم میری زندگی کا یہ کتنا پیارا سال ہو گا۔ [2] بہرحال آپ نے اپنے ان ارادوں میں سے کچھ کو تو عملی جامہ پہنایا خاص طور سے شام کی ریاست کا آپ نے کئی مرتبہ دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیا، وہاں کے گورنران وافسران کے گھروں میں داخل ہوئے،[3] تاکہ ان کی طرز رہائش کو قریب سے جان سکیں۔ چنانچہ آپ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کی طرز رہائش وزاہدانہ زندگی کا مشاہدہ کیا، اسی دوران امیرالمومنین اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے درمیان کچھ گفت وشنید بھی ہوگئی جس میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے گھرانے کی بدحال زندگی کے واسطہ سے عمر رضی اللہ عنہ کو کافی طنز وملامت کی۔ بالکل اسی طرح آپ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور کوئی قابل ذکر چیز ان کے یہاں نہ ملی، صرف اسلحہ ملا جس کو درست کرنے میں اس وقت خالد بن
[1] تاریخ المدینۃ: ۲/۷۶۱۔ [2] الأنصار فی العصر الراشدی: ص۱۲۳۔ ۱۲۶۔ [3] عبقریۃ عمر: العقاد ص: ۸۲، الدولۃ الإسلامیۃ: حمدی شاہین: ص ۱۳۸۔