کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 545
۳: ڈاک خانے کے خطوط و رسائل: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ گورنران کے پاس قاصد (ڈاکیا) کے ذریعہ ڈاک بھیجتے تھے اور قاصد کو حکم دیتے تھے کہ جب وہ مدینہ لوٹنے لگے تو لوگوں میں اعلان کر دے کہ کیا کوئی شخص امیرالمومنین کے نام کوئی خط بھیجنا چاہتا ہے؟ اس اعلان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ قاصد اس خط کو والی ریاست کی کسی دخل اندازی کے بغیر امیرالمومنین تک پہنچائے۔ خود نامہ بر بھی یہ نہ جانتا تھا کہ ان خطوط میں کیا تحریر ہے۔ چنانچہ اس امانت داری کا نتیجہ یہ ہوتا کہ والی ریاست یا اور کسی کی اطلاع کے بغیر براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی شکایت اور دکھ درد پیش کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے راستہ کھلا رہتا۔ جب وہ قاصد خطوط لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتا تو آپ انہیں زمین پر پھیلا دیتے اور ایک کر کے سارے خطوط دیکھتے اور پڑھتے۔[1] ۴: محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مفتش عام (انسپکٹر جنرل) کی حیثیت سے: والیان ریاست کی نگرانی، ان کے محاسبہ اور ان کے خلاف آئی ہوئی شکایات کی تحقیق کے لیے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے تعاون لیتے تھے۔ گویا فاروقی عہد خلافت میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ منقش عام (انسپکٹر جنرل) کے منصب پر فائز تھے۔ چنانچہ آپ گورنر ان کی کارکردگی کے حقائق معلوم کرتے رہتے اور ان میں جو کوتاہ ملتا اس کا محاسبہ کرتے، بڑے بڑے گورنران کی نگرانی اور ان کی جانچ اور ان کے خلاف آئی ہوئی شکایات کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے عمر رضی اللہ عنہ انہیں بھیجتے تھے۔[2] اور وہ لوگوں کے روبرو معاملہ کی اصلیت معلوم کر کے گورنران کے بارے میں عوام کی رائے براہ راست عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچاتے تھے۔ واضح رہے کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے کچھ معاونین بھی ہوتے تھے۔ ۵: حج کا موسم: عمر رضی اللہ عنہ موسم حج کو اپنی رعایا اور والیان ریاست کی صحیح معلومات حاصل کرنے کا ایک بہترین موقع شمار کرتے تھے اور اسے حکومتی کارکردگی کے جائزہ ومحاسبہ اور مختلف حکومتی امور وشعبہ جات میں تبادلہ خیال کا موسم قرار دیتے تھے چنانچہ اس میں وہ لوگ اکٹھے ہوتے جنہیں حکومت سے کوئی شکایت ہوتی یا مظالم کے شکار ہوتے اور وہ لوگ بھی ہوتے جو آپ کی طرف سے ملک کے مختلف علاقوں میں عمال ووالیان ریاست کی نگرانی پر مامور ہوتے تھے۔ خود والیان اپنی کارکردگی کا حساب پیش کرنے کے لیے وہاں آتے تھے گویا حج کا موسم موجودہ دور کی ترقی یافتہ جنرل اسمبلیوں سے کہیں زیادہ بہتر جنرل اسمبلی کا منظر پیش کرتا تھا۔[3] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ حج کے موسم میں رعایا کے سامنے اپنے عمال کی ذمہ داریوں کو مختصراً بیان کرتے تھے اور پھر کہتے:
[1] التاج فی أخلاق الملوک: ص۱۶۸۔ [2] فن الحکم: ص۱۷۴۔ [3] ابحراج، أیوسف، ص ۱۲۴، الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۵۷۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۵۷۔