کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 536
مقصد سے تیار کیے جا رہے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آٹھ بڑے شہروں میں سے ہر شہر میں تقریباً مذکورہ تعداد میں گھوڑوں کی پرورش و پرداخت ہو رہی تھی۔[1] یہ گھوڑے اسلامی سلطنت کی طرف سے فوری دفاعی ضرورت کے مقصد سے تیار کیے جاتے تھے۔[2] بچوں کو دینی تعلیم دینا اور انہیں جہاد کے لیے تیار کرنا: عمر رضی اللہ عنہ شہر کے ذمہ داران کو خط لکھ کر انہیں حکم دیتے تھے کہ وہاں کے بچوں کو شہسواری، تیراکی اور تیر اندازی کی تعلیم دیں۔ شام میں تیر اندازی سیکھنے کے دوران ایک بچے کو تیر لگ گیا جس کی وجہ سے وہ وفات پا گیا۔ لوگوں نے اس خبر کی اطلاع عمر رضی اللہ عنہ کو دی تو آپ نے بچوں کو تیر اندازی سکھانے کا دوبارہ حکم نہیں دیا۔[3] فوجی دفاتر و دواوین کا اہتمام و جائزہ: عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہریوں کے دفاتر و دواوین پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ کیونکہ آپ کے خیال میں دوسروں کے بالمقابل ان کی مردم شماری اور ان کے دواوین کی تنظیم کی زیادہ ضرورت تھی۔ خاص طور سے وہ شہر اور آبادیاں جو دشمنوں کی سرحدوں سے قریب تھیں اور وہاں مستقل فوج کی ضرورت تھی۔ [4] اگرچہ ہر ریاست میں فوج کے دواوین و دفاتر کے مخصوص ذمہ دار تھے جو ان کے لوازمات کو منظم کرتے تھے تاہم والیان ریاست ان فوجی دفاتر کے ذمہ دار اعلیٰ ہوتے تھے اور چونکہ یہ گورنران جنگی مہمات کی امارت بھی سنبھالتے تھے اس لیے گویا وہ لوگ نائب خلیفہ کی حیثیت سے فوجی دفاتر و واوین کے ذمہ دار اعلیٰ ہوتے تھے۔[5] معاہدات کی تنفیذ: ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور شام کے بعض شہروں کے درمیان معاہدے ہوئے۔ اسی طرح عراق کے گورنران میں سعد بن ابی وقاص اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اپنے اپنے وقت میں معاہدے کیے۔ مزید برآں یہ گورنران ذمیوں کے حقوق کی حفاظت اور شخصی وملکی معاہدوں کی پابندی کرتے تھے اور معاہدوں کی پاسداری ورعایت سے متعلق شرعی احکام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معاہدوں کو نافذ کرتے تھے۔[6] آپ نے ذمیوں کے بارے میں اپنی رعایا کو نصیحت کی کہ ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر تمہیں بھلائی کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، ان ذمیوں کی طرف سے دفاع کیا جائے اور انہیں ان کی طاقت سے زیادہ مکلف نہ کیا جائے۔‘‘[7]
[1] الولایۃ علی البلدان: ۱/۷۷۔ [2] الفتوح، ابن اعثم: ص ۲۱۵۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۲/۷۴۔