کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 535
کی ذمہ داریوں کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ دشمن کی جانب مجاہدانہ پیش رفت میں بھی شرکت کرتے تھے اور ریاست کی دیگر ذمہ داریاں اس سے مانع نہ ہوتی تھیں۔ چنانچہ مجاہدانہ تحریک کو مضبوط بنانے میں گورنروں کے جن اہم کارناموں کا تاریخی مصادر میں ثبوت ملتا ہے ان میں سے چند ایک کو یہاں ذکر کیا جا رہا ہے: رضا کار مجاہدین کو جنگی محاذ پر بھیجنا: یہ لوگ جن اہم مقاصد کو انجام دیتے تھے وہ یہ تھے: ریاست کی طرف سے دشمنوں کا دفاع:… آپ نے فرمایا: ’’مجھ پر تمہارا حق یہ ہے کہ تمہاری سرحدوں کو محفوظ کروں۔‘‘ شہروں میں قلعوں کی تعمیر:… آپ نے مصر کے شہر ’’جیزہ‘‘ میں آنے والے فاتح قبائل کے لیے قلعے بنانے کا حکم دیا تاکہ دشمن کے اچانک حملوں سے انہیں محفوظ کیا جا سکے۔[1] دشمنوں کی نقل وحرکت کا سراغ لگانا: ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ شام کے شہروں میں رومی افواج کے خفیہ اجتماع کا دقت نظری سے سراغ لگاتے تھے اور انہی خبروں کی بنا پر دشمن کو چکمہ دیتے ہوئے کچھ اسلامی افواج کے انخلاء کا آغاز بھی کر دیتے۔[2] اسلامی شہروں میں فوجی گھوڑوں کی مدد بھیجنا: اسلامی شہروں میں ان کی ضرورت کے مطابق جہاد کے لیے گھوڑوں کی فراہمی کے لیے آپ کی پوری سلطنت میں ایک عام سیاست تھی، اسی سیاست کے پیش نظر آپ نے کچھ لوگوں کو بصرہ کی کچھ زمین اس مقصد سے دی تھی تاکہ اس میں حکومتی گھوڑے تیار کر کے ان کی پرورش کریں اور انہیں جنگی تربیت دیں۔[3] اسی طرح دمشق میں بھی کچھ زمین بعض مسلمانوں کو اسی مقصد کے لیے دی تھی کہ وہ اس میں حکومتی گھوڑوں کی پیداوار بڑھائیں گے اور ان پر توجہ دیں گے لیکن انہوں نے اس میں کاشتکاری شروع کر دی۔ تو آپ نے ان سے زمین چھین لی اور حکومتی مقصد کی خلاف ورزی کے جرم میں ان پر جرمانہ عائد کیا۔ آپ اسی مقصد سے کوفہ میں چار ہزار (۴۰۰۰) گھوڑوں کی پرورش کر رہے تھے اور باشندگان کوفہ کے چند لوگوں کو معاون بنا کر سلمان بن ربیعہ الباہلی رضی اللہ عنہ کو ان کا نگران مقرر کر دیا تھا۔ وہ سب لوگ سابقہ روایات کے مطابق انہیں تیار کرتے اور ہر سال انہیں ضرورت کے مطابق کام میں لاتے۔ بصرہ میں بھی اتنے ہی گھوڑے اسی
[1] مناقب عمر بن الخطاب، ابن الجوزی: ص: ۲۴۰،۲۴۲۔ [2] الوثائق السیاسیۃ للعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ: ص۵۲۱۔ [3] الولایۃ علی البلدان: ۲/۷۰۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۲/۷۰۔ [5] عیون الأخبار: ۱/۱۱۔ [6] الولایۃ علی البلدان: ۲/۷۱۔ [7] الولایۃ علی البلدان: ۲/۷۱۔