کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 514
اقامت گزیں تھے۔ پھر جب کوفہ کو شہری حیثیت حاصل ہوگئی تو آپ وہاں منتقل ہوگئے۔ سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجاہدین کا لشکر تھا اس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی تھے اور فارس کے خلاف متعدد معرکہ آرائیوں میں برابر کے شریک تھے، اہل فارس سے جنگ چھڑنے سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دینے میں سلمان رضی اللہ عنہ کا بڑا اہم کردار تھا۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو مدائن کا والی (گورنر) بنایا اور آپ ان میں اچھی طرح زندگی گزارتے رہے۔ اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کرنے میں آپ کی شخصیت ایک زندہ مثال تھی۔ روایات میں وارد ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ منصب ولایت قبول کرنے کے لیے راضی نہ تھے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ عہدہ سنبھالنے کے لیے مجبور کیا، تاہم آپ برابر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ کر اس عہدہ سے سبکدوشی کا مطالبہ کرتے رہے اور عمر رضی اللہ عنہ اسے نامنظور کرتے رہے۔ بہرحال سلمان رضی اللہ عنہ ایک زاہد و تقویٰ شعار آدمی تھے، اونی لباس پہنتے، گدھے کی ننگی پیٹھ پر (بغیر پالان کے) سواری کرتے اور جو کی موٹی روٹی کھاتے تھے۔ آپ عبادت گزار اور پرہیز گار تھے۔[1] سلمان رضی اللہ عنہ ایک گورنر کی حیثیت سے مدائن میں زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ راجح قول کے مطابق ۳۲ہجری میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ کی وفات ہوگئی۔ بظاہر سلمان رضی اللہ عنہ ، دور فاروقی کے آخری ایام تک مدائن کے گورنر نہیں تھے، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے آخر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مدائن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ البتہ مؤرخین نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سلمان رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا تھا، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہوں نے بار بار جس استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کئی مرتبہ نامنظور کرنے کے بعد بالآخر منظوری دے دی ہو اور اس کے بعد حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا دیا ہو۔ مدائن پر حذیفہ رضی اللہ عنہ کی گورنری سے متعلق متعدد روایات وارد ہیں، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اہل مدائن کے نام سرکاری خط بھیج کر انہیں اطلاع دی کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ان کے گورنر بنائے جا رہے ہیں، اہل مدائن کو چاہیے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت و فرماں برداری کریں۔ چنانچہ حذیفہ رضی اللہ عنہ دور فاروقی کے آخری ایام اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی مکمل مدت خلافت تک وہاں کے گورنر رہے۔[2] آذربائیجان: آذربائیجان کے سب سے پہلے گورنر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے پھر جب آپ کو مدائن منتقل کر دیا گیا تو ان کی جگہ پر عتبہ بن فرقد السلمی رضی اللہ عنہ گورنر بن کر آئے، عتبہ اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کئی مرتبہ خط وکتابت ہوئی، چنانچہ ایک مرتبہ ایک واقعہ اس طرح پیش آیا کہ عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ جب بحیثیت گورنر آذربائیجان آئے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ ’’حبیص‘‘ نام کا ایک لذیذ حلوہ تیار کرتے ہیں، آپ نے سوچا کہ اسے بنوا کر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجنا چاہیے
[1] الطبقات: ۳/۱۵۷۔ [2] الفتوح، ابن اعثم: ۲/۸۲۔ [3] نہایۃ الأرب: ۱۹/۳۶۸۔ [4] تاریخ خلیفۃ : ص۱۵۵، تاریخ الطبری: ۵/۲۳۹۔