کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 510
نامنظور کر دیا اور کہا کہ آپ واپس جائیں اور اسی منصب کو سنبھالیں۔ بہرحال عتبہ رضی اللہ عنہ واپس ہوگئے اور بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں آپ کی وفات ہوگئی۔ جب عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کی وفات کی خبر ملی تو کہنے لگے: اگر موت کا ایک مقررہ وقت نہ ہوتا (تو میں یہی سمجھتا کہ) میں نے ان کو قتل کیا ہے اور پھر ان کے حق میں آپ خیر کے کلمات کہنے لگے۔ ان کی وفات ۱۷ ہجری میں ہوئی۔[1] سیّدناعتبہ رضی اللہ عنہ کے بعد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بصرہ کے گورنر مقرر کیے گئے، آپ نے منصب ولایت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے بصرہ کا دیوان (رجسٹر مردم شماری ووظائف) مرتب کیا اور اپنی ذمہ داریاں آخری وقت تک نبھاتے رہے، لیکن جب ۱۷ ہجری میں آپ پر ’’زنا کاری‘‘ کی تہمت لگائی گئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو منصب ولایت سے معزول کر دیا اور پھر ان پر تہمت کی تحقیق کرنے لگے، تحقیق وتفتیش میں مغیرہ رضی اللہ عنہ بری ثابت ہوئے اور تینوں گواہوں پر تہمت کی حد نافذ کی گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو احتیاطاً اور مصلحتاً معزول کر دیا تھا لیکن بعد میں ان کو دوسری جگہوں کی امارت و قیادت عطا فرمائی۔[2] مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کے بعد آپ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا گورنر بنا کر بھیجا، واضح رہے کہ دور فاروقی میں جتنے لوگ بصرہ کے گورنر بنا کر بھیجے گئے ان میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ شہرت ملی، ان کے دور میں فارس کے بہت سارے معرکے فتح ہوئے، آپ خود جہاد میں شریک ہوتے اور مختلف علاقائی مہموں کے لیے بصرہ سے فوجی جرنیلوں کو بھیجتے، چنانچہ آپ کی مدت ولایت (گورنری) میں مجاہدین بصرہ نے ’’اہواز‘‘ اور اس کے گرد و پیش مختلف علاقوں اور دیگر کئی اہم مقامات کو فتح کیا۔ آپ کی گورنری کا زمانہ مجاہدانہ سرگرمیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بہت ساری فتوحات اور جنگی کارروائیوں میں آپ نے اپنے قرب وجوار کے حکام اور گورنروں سے تعاون لیا۔ آپ نے مفتوحہ علاقوں کی تنظیم، ان پر گورنروں کی تعیین اور ان کے مختلف اداری امور کی ترتیب دینے نیز انہیں امن و استحکام بخشنے میں کافی محنت کی۔ متعدد معاملات میں آپ اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان خط و کتابت بھی ہوئی۔ بعض خطوط میں آپ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یہ رہنمائی فرمائی کہ مجلس امارت میں لوگوں کا کس طرح استقبال کریں اور بعض میں تقویٰ و خدا ترسی اور رعایا کو خوش رکھنے کی رہنمائی تھی۔ یہ رہنمائی بہت بیش قیمت تھی اس میں آپ نے فرمایا: ’’حمد و صلاۃ کے بعد! لوگوں میں سب سے خوش بخت وہ ہے جس سے اس کی رعایا خوش ومطمئن ہو اور سب سے بدبخت وہ ہے جس سے اس کی رعایا نالاں ہو، تم خود کو حکومت کے پیچھے پڑنے سے دور رکھو، ورنہ تمہارے ماتحت افسران تمہاری طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگیں گے پھر تمہاری مثال اس چوپائے جیسی ہو جائے گی جس نے کسی شادابی و سرسبزی کو دیکھا تو اس میں چرنا شروع کر دیا
[1] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۱۱۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۱/۱۱۳۔ [3] تاریخ خیلیفۃ بن خیاط: ص ۱۵۵۔ [4] التنظیمات الاجتماعیۃ والاقتصادیۃ فی ا لبصرۃ: ص۳۶۔ [5] تاریخ خلیفۃ بن خیاط: ص ۱۲۷،۱۲۸۔