کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 508
معاویہ رضی اللہ عنہ میں فرق اتنا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان میں سب سے زیادہ شہرت حاصل تھی کیونکہ وہ بلقاء، اردن، فلسطین، انطاکیہ، قلقیلیہ اور معرہ مصرین وغیرہ شام کے دیگر کئی شہروں کے گورنر تھے۔[1] بعض مؤرخین نے آپ کو پورے شام کا تنہا گورنر بتایا ہے، جبکہ بعض مؤرخین نے اس سلسلے میں قید لگائی ہے اور جہاں عمر رضی اللہ عنہ کے گورنروں کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ ’’معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما شام کے بعض علاقوں کے گورنر تھے۔‘‘ اور بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو پورے شام کا گورنر بنا دیا تھا۔[2] بہرحال جو کچھ بھی ہو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس دور میں ملک کے احوال و ظروف بالخصوص فوجی حالات کے پیش نظر ریاستوں کی حدود میں برابر تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ اردن کبھی کبھار مستقل ایک ریاست ہوتی تھی اور کبھی اس کے ساتھ دیگر ریاستیں بھی شامل کر دی جاتی تھیں اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ اس کے کچھ شہروں کو اردن سے نکال کر شام یا فلسطین میں شامل کر دیا جاتا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں جن کا تفصیلی بیان یہاں مقصود نہیں ہے۔[3] عراق اور فارس کی ریاستیں: عراق میں فتوحات کا سلسلہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور ہی سے شروع ہو چکا تھا، ابتدا میں مثنی بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ عراق کے امیر تھے، لیکن جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق پہنچے تو وہاں کی گورنری انہی کو سونپ دی گئی اور جب سیّدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کو شام کی طرف فوج کشی کا حکم ملا تو اس وقت دوبارہ مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں وہاں کی امارت آگئی۔ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو آپ نے مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ان کی جگہ پر ابوعبید بن مسعود ثقفی کو وہاں کی امارت دے دی۔ مثنی کی معزولی کا یہ وہی وقت تھا جب آپ نے خالد رضی اللہ عنہ کو بھی معزول کیا تھا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی اس سیاست نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ آخر آپ نے ایسا اقدام کیوں کیا؟ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے کسی شک اور تہمت کی بنا پر ان دونوں کو معزول نہیں کیا بلکہ لوگ ان دونوں کی حد سے زیادہ تعظیم کرنے لگے تھے تو مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ انہی دونوں پر حقیقی بھروسا نہ کر لیں۔‘‘[4] مثنی رضی اللہ عنہ اگرچہ معزول کر دیے گئے تاہم وہ ایک مخلص فوجی کی طرح زندہ رہے اور ابوعبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے بیشتر معرکوں میں شریک رہے اور جنگ میں پوری بہادری دکھائی۔[5]
[1] فتوح البلدان: ص۱۳۷۔ [2] فتوح البلدان: ص ۱۴۵، ۱۴۶۔ [3] الوثائق السیاسۃ للعصر النبوی والخلافۃ الراشدۃ: ص ۴۹۳۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۹۲۔ [5] تاریخ الطبری: ۵/ ۲۳۹۔ [6] الولایۃ علی البلدان: ۱/۹۲۔