کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 506
تعاون لیتے رہتے تھے۔ البتہ خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے گورنر جنرل اور ذمہ دار کی حیثیت سے تمام تر صوبائی معاملات کے جواب دہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہوتے تھے۔ آپ نے خراج اور دیگر مالیاتی معاملات کی تنظیم و ترتیب سے متعلق اپنے ہی صوبہ کے چند ماہرین اشخاص سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا۔[1] شام اور اس کی ریاستیں: سیّدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت شام کی اسلامی فوج اور وہاں کے ملکی انتظام وانصرام کے اعلیٰ ذمہ دار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے اور جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو شام کی گورنری سے معزول کر کے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو وہاں کے امراء وافسران کا گورنر جنرل واعلیٰ ذمہ دار بنا دیا۔[2] چنانچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں کے امور و معاملات کو جدید طریقے سے منظم کرنے لگے۔ شام کے بعض جدید علاقوں پر اپنی صوابدید سے نئے گورنران کی تقرری کی، جبکہ دیگر علاقوں کے گورنران میں سے بعض کو انہی کے مقام پر باقی رکھا اور بعض کو معزول کر دیا۔ مؤرخ خلیفہ بن خیاط لکھتے ہیں: ’’جب شام کے تمام علاقے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں ہوگئے تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ولایت کے دوران فلسطین اور اس سے متصل علاقوں پر یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کو، اردن پر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو، دمشق پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اور حمص پر حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو وہاں کے امیر کی حیثیت سے مقرر کیا، البتہ آخر الذکر کو آخر میں معزول کر کے ان کی جگہ پر عبداللہ بن قرط ثمالی رضی اللہ عنہ [3] کو مقرر کر دیا تھا۔ اسی طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو والی (نائب گورنر) بنایا لیکن پھر ان کو معزول کر کے ان کی جگہ دوبارہ عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ کو مقرر کر دیا۔[4]کبھی کبھار آپ اپنے معاونین ومصاحبین کو ایک محدود وقت کے لیے شام کے بعض خطوں کا حاکم بنا کر بھیجتے تھے، مثلاً معاذ بن جبل کو اردن پر اسی نوعیت کا حاکم بنا کر بھیجا تھا۔[5] اسی طرح جب کبھی جہاد کے سفر پر نکلتے تو کسی کو اپنا نائب بنا کر جاتے تھے۔ جیسے بیت المقدس میں جاتے ہوئے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کو دمشق میں اپنا نائب بنایا تھا۔[6] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جب تک شام کے گورنر رہے اپنے ماتحت دیگر امراء وذمہ داران، نیز عوام کے لیے ایک نیک اور رحم دل انسان کی سچی تصویر کا نمونہ بن کر رہے، آپ کی وفات طاعون عمواس میں ہوئی اور پھر آپ کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ یہاں کے گورنر ہوئے، لیکن مختصر ہی مدت میں ان کی بھی وفات ہوگئی۔ چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب ابوعبیدہ اور معاذ رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبر ملی تو یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کو شام کی افواج کا اعلیٰ ذمہ دار (کمانڈر ان چیف) مقرر کیا اور دوسرے کئی امراء کو
[1] فتوح مصر: ص ۱۷۳۔ [2] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۷۹۔ [3] فتوح مصر وأخبارہا : ص ۱۵۲۔ [4] الولایۃ علی البلدان: ۱/ ۸۲۔