کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 495
۱۸: ہر قسم کے پھل دار درخت کو نصف، ربع، ثلث وغیرہ مشترکہ تمام حصوں کے عوض آب پاشی پر دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹: ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک کپڑے کی اجرت پر نوکر رکھنا جائز ہے۔ ۲۰: ’’ہبہ‘‘ کا حکم اس وقت تک نہیں نافذ ہوگا جب تک کہ موہوب لہ کا اس پر قبضہ نہ ہوجائے۔ ۲۱: اگر کوئی آدمی کسی غیر ذی رحم (عام آدمی) کو کچھ ہبہ کردے تو موہوب لہ کے اس پر قبضہ پانے سے پہلے ہبہ کرنے والے کو اس کا واپس لینا درست ہے، جب کہ ذی رحم (قریبی رشتہ دار) کو ہبہ کیے ہوئے مال کا واپس لینا درست نہیں ہے۔ ۲۲: لقطہ (گری پڑی چیز) کے اعلان کی مدت ایک سال ہے۔ ۲۳: لقطہ (گری پڑی چیز) اگر معمولی نوعیت کی ہو تو اعلان کیے بغیر اسے استعمال کرلینا اور رکھ لینا جائز ہے۔ ۲۴: اگر شریعت کی مقررہ مدت تک لقطہ کا اعلان کیا جائے اور اس کا کوئی مالک نہ مل سکے تو وہ مال پانے والے کا ہوجائے گا۔ وہ مال دار ہو یا فقیر۔ ۲۵: حدود حرم اور حدود حرم سے باہر کے لقطہ کا حکم یکساں ہے۔ ۲۶: گری پڑی چیز پانے والے کی امانت کا تقاضا ہے کہ یہ بتا دے کہ یہ مال اسے کس نے دیا۔ ۲۷: وصیت کردہ مال کو واپس لینا درست ہے، نیز آدمی اپنی وصیت میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ ۲۸: ’’کلالہ‘‘ اس میّت کو کہتے ہیں جس کے نہ کوئی اولاد ہو اور نہ والدین۔ ۲۹: لڑکیوں کی موجودگی میں بہنیں عصبہ ہوں گی بشرطیکہ مال باقی بچے۔ ۳۰: اگر میت بیوی ہو اور اس کے ورثاء میں شوہر، ماں، سگے بھائی اور اخیافی بھائی ہوں تو قدیم وجدید ہر دور میں اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے۔ عمر، عثمان اور زید بن ثابترضی اللہ عنہم نے ثلث میں سگے بھائیوں کے ساتھ اخیافی بھائیوں کو بھی حصہ دیا ہے، اور لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ کے مطابق ہر ایک کو برابر برابر تقسیم کیا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سگے بھائیوں کو ایسی حالت میں حصہ دینے کے قائل نہ تھے تو ان میں سے بعض نے کہا: اے امیر المومنین! مان لیں ہمارا باپ گدھا تھا، کیا ہماری مائیں ایک نہیں ہیں؟ تو آپ نے ان کو بھی شریک کردیا۔ اسی وجہ سے علم المواریث میں اس مسئلہ کو مُشَرَّکۃ‘‘ اور ’’حماریہ‘‘ کہتے ہیں۔ ۳۱: جدات (دادیوں) کا حصہ (۶/۱) سدس ہے، ان کی تعداد خواہ کتنی بھی ہو، یہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھی قول ہے۔ ۳۲: ایک میت کے ورثاء میں اگر ماں، بہن، اور دادا ہوں تو بہن کو نصف (۲/۱) اور ماں کو باقی ماندہ مال کا (۳/۱) ثلث، پھر جو بچے وہ دادا کا ہے۔ ۳۳: ایک میت (بیوی) کے ورثاء میں شوہر اور میت کے ماں باپ ہوں تو شوہر کو نصف (۲/۱) اور ماں کو باقی ماندہ مال کا ثلث (۳/۱) اور پھر جو بچے وہ باپ کا ہے۔ اور اگر میت شوہر ہے، تو بیوی کو ربع (۴/۱)، ماں کو
[1] بیع سلم میں قیمت پیشگی دے دی جاتی ہے اور مال بعد میں لیا جاتا ہے۔ (مترجم) [2] مفلس وہ شخص جس کا دیوالیہ ہوگیا ہو۔