کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 491
اور ایک لفظ میں تین طلاقوں کو تین شمار کرکے آپ نے اپنی طرف سے کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ نیز واضح رہے کہ آپ کے اس اقدام کی توثیق وتائید کرنے والے عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور عمران بن حصین جیسے بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور ان سے اس سلسلہ میں کئی کئی روایات وارد ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ایک لفظ میں یا متعدد الفاظ میں تین طلاقیں دینا مثلاً اس طرح کہا جائے کہ تجھے تین طلاق، یا تجھے طلاق، طلاق، طلاق یا تجھے طلاق، پھر طلاق، پھر طلاق، یا یوں کہا جائے کہ تجھے طلاق ہے، تین، دس، سو، یا ہزار طلاقیں، یا اس طرح کی کوئی بھی تعبیر اختیار کی جائے، یہ مسئلہ حاکم کے اجتہاد پر موقوف ہے۔ وقت اور زمانہ کے مفاد کی رعایت کرتے ہوئے جیسا مناسب سمجھے فیصلہ کرے۔ انہیں تین طلاق شمار کرے یا ایک طلاق، طلاق رجعی۔ [1] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (مسئلہ طلاق میں) عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے متقدمین (صحابہ کرام) کے اجماع کی مخالفت نہیں کی، بلکہ اس معاملہ میں عجلت کرنے والوں کے لیے بطور سزا تینوں طلاقیں نافذ کر دینا مناسب سمجھا، کیونکہ بلا کسی شرعی وجہ جواز کے طلاق دینے کی حرمت سب کو معلوم تھی۔ تاہم ان میں اس کا عام چلن ہوتا جا رہا تھا اور بلاشبہ ان حالات میں ائمہ وقت (حکام) کو یہ اختیار ہے کہ لوگ جس مشقت کو خود مول لینے پر تلے ہوئے ہوں اور اللہ کی نرمی و رخصت قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں وہ انہیں اسی کا پابند کر دے۔ [2] نکاح متعہ کی حرمت: نکاح متعہ کی حرمت اور اس پر سختی کے سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ سے کئی آثار و روایات وارد ہیں۔ آپ اسے زنا قرار دیتے تھے کہ اگر شادی شدہ شخص اس کا مرتکب ہو تو وہ رجم کا مستحق ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی شدت کو دیکھ کر بعض لوگوں نے یہاں تک گمان کرلیا کہ ’’نکاحِ متعہ‘‘ کو حرام قرار دینے والے دراصل عمر رضی اللہ عنہ ہیں نہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ چنانچہ ابونضرہ کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ حج تمتع کا حکم دیتے تھے جب کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے اس بات کو جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہمارے سامنے بات ہوئی تھی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا تھا، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی تو فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لیے جو چاہتا تھا اور جس طرح چاہتا تھا حلال کرتا تھا، قرآن کا نزول مکمل ہوچکا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس طرح حج وعمرہ پورا کرنے کا حکم دیا اسے پورا کرو، اور عورتوں سے نکاح متعہ کرنے سے دور رہتے ہوئے ہمیشگی کی شادی کرو۔ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے متعینہ مدت کے لیے نکاح (یعنی نکاح متعہ) کیا اور
[1] القضاء فی عہد عمر بن الخطاب: ۲/ ۷۳۶ [2] سنن أبی داؤد، باب فی البتۃ: ۱/ ۵۱۱، رقم الحدیث: ۲۲۰۶۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ جریج کی سند سے آئی ہوئی روایت جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی تھیں اس کے مقابلے میں یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کو نقل کرنے والے رکانہ کے اہل خانہ ہیں اور وہ واقعہ سے زیادہ آگاہ ہیں ۔ امام نووی کا کہنا ہے کہ دوسری روایت جس میں ہے کہ رکانہ نے تین طلاقیں دی تھیں ، پھر اس کو ایک شمار کیا تھا، سو یہ روایت ضعیف ہے، اس میں مجہول راوی ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ’’طلاق بتہ‘‘ دی تھی، اور ’’بتہ‘‘ کا لفظ ایک اور تین دونوں کو محتمل ہے۔‘‘ شرح النووی: ۱۰/۷۱۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں نافع بن عجیر ہیں ابن حبان کے علاوہ کسی نے ان کی توثیق نہیں کی ہے اور ابن قیم نے انہیں مجہول قرار دیا ہے۔ زاد المعاد: ۲/ ۲۶۳۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل: ۲/ ۱۴۷۔