کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 490
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس کو ڈانٹا۔ پس آپ کی ناراضی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، کیونکہ وہاں بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی، اگر وہ واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور بیان کرتے اور اصول فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ جس مقام ووقت پر بیان ووضاحت کی ضرورت ہو اسے بلا کسی مجبوری کے وہاں سے مؤخر کرنا درست نہیں ہے۔ [1] ۳: نافع بن عمیر بن عبدیزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی سہیمیہ کو طلاق بتہ دے دی اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم میں نے اس سے صرف ایک طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَاللّٰہِ مَا اَرَدْتَّ اِلَّا وَاحِدَۃً؟)) ’’اللہ کی قسم! کیا یقینا تم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟‘‘ رکانہ نے جواب دیا: ’’قسم اللہ کی، میں نے ایک ہی کی نیت کی تھی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کر دیا۔ اور رکانہ نے پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنی بیوی کو دوسری طلاق اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تیسری طلاق دی۔ [2] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رکانہ نے اپنی بیوی کو ’’طلاق بتہ‘‘ دے دی اور کہا کہ میری نیت ایک طلاق دینے کی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بات پر قسم لی کہ کیا واقعتاتم نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟ اور جب انہوں نے قسم کھا لی تو آپ نے ان کی بیوی کو ان کے پاس واپس کردیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلفیہ بیان لینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ’’طلاق بتہ‘‘ سے انہوں نے تینوں طلاقوں کی نیت کی ہوتی تو وہ واقع ہوجاتیں، ورنہ نیت پر حلفیہ بیان لینے کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے۔ بہرحال مذکورہ دلائل وامثال کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے طلاق سے متعلق مذکورہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی روشنی میں کیا تھا،
[1] القضاء فی الإسلام، ص: ۹۸،۹۹۔ [2] المدونۃ الکبریٰ، الطلاق، طلاق السنۃ: ۲/ ۶۲۔ یہ روایت مرسل ہے۔ لیکن سعید بن مسیب کے مراسیل میں سے ہے جسے محدثین نے قابل قبول مانا ہے۔ [3] سنن النسائی، الطلاق الثلاث المجموعۃ: ۶/ ۱۴۳، رقم الحدیث: ۳۴۰۱۔ حافظ ابن حجر نے اس کے رجال کو ثقہ کہا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری: ۹/ ۳۶۲۔ حافظ ابن قیم کا کہنا ہے کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد: ۵/ ۲۴۱۔ شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے ضعیف سنن النسائی۔ اس روایت کو صحیح مان لینے کی صورت میں بھی مصنف کا استدلال عجیب ہے کہ سخت ناراضگی کا اظہار کرنے کے باوجود ان دی ہوئی طلاقوں کو صحیح مان لیا، حالانکہ آپ کی ناراضگی اس کی عدم شرعیت کی دلیل ہے کیونکہ یہ فعل غیر مشروع ہے، اور جب غیر مشروع ہے تو پھر اس کے وقوع کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔)) رواہ مسلم: ۱۷۱۸۔ جو کوئی ایسے عمل کا ارتکاب کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہے وہ مردود ہے۔ (مترجم)