کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 49
(۲) قبولِ اسلام اور ہجرت قبولِ اسلام: سب سے پہلے آپ کے دل پر نور کی کرنیں اس وقت پڑیں جب آپ نے دیکھا کہ قریش کی عورتیں آپ اور آپ جیسے دیگر لوگوں کی بدسلوکیوں سے تنگ آکر اپنا ملک چھوڑ کر دور دوسرے ملک میں جا رہی ہیں۔ اس وقت آپ کا دل نرم پڑگیااور ضمیر نے آپ کو ملامت کی۔ آپ نے ان پر اظہار غم کیا اور ان کو ایسا بہترین کلام سنایا کہ جسے سننے کی وہ آپ سے کبھی امید نہیں رکھتی تھیں۔ [1] امّ عبداللہ بنت حنتمہ کا بیان ہے: جب ہم ہجرت حبشہ کے لیے کوچ کر رہی تھیں تو عمر آئے اور میرے پاس کھڑے ہوگئے۔ ہمیں ان کی بہت سی اذیتوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا: اے امّ عبداللہ! کیا کوچ کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم، ہم ضرور اللہ کی زمین میں ہجرت کریں گی۔ تم لوگوں نے ہم کو تکلیف دی ہے، ستایا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ ہمارے لیے کشادگی پیدا کردے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ آپ لوگوں کا ساتھی ہو۔ میں نے اس وقت آپ کی طرف سے ایسی رقت ونرمی دیکھی جو کبھی نہ دیکھی تھی۔ چنانچہ جب عامر بن ربیعہ تشریف لائے جو اپنی کسی ضرورت کے لیے باہر گئے ہوئے تھے، اور میں نے ان سے واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: لگتا ہے کہ تم عمر کے اسلام کی امید رکھتی ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: وہ اس وقت تک اسلام نہیں لاسکتے جب تک خطاب کا گدھا اسلام نہ لے آئے۔ (یعنی یہ ناممکن ہے۔) [2] عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے عزم ویقین کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، اور احساس کیا کہ ان کا سینہ تنگ ہے۔ اس نئے دین کے ماننے والے اتنی زبردست مشکلات ومصائب کا سامنا کر رہے ہیں پھر بھی وہ اس پر جمے ہوئے ہیں۔ آخر اس ناقابل تسخیر قوت کا راز کیا ہے؟ آپ غمگین ہوئے اور دل کو ایک چرکا لگا۔ [3] اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے آپ اسلام لے آئے، دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی آپ کے قبول اسلام کا بنیادی سبب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی:
[1] الفتاوی: ۱۵؍ ۳۶، فرائد الکلام للخلفاء الکرام، ص: ۱۴۴