کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 476
چند جرائم وبدعنوانیوں کے بارے میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قانونی سزائیں ۱: حکومت کی جعلی مہر بنو الینا: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک ایسا خطرناک واقعہ پیش آیا جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا، وہ یہ کہ معن بن زائدہ نے حکومت کی طرح جعلی مہر بنوا لی اور اس کی تصدیق سے اسلامی بیت المال سے مال نکلوا لیا۔ جب اس کا انکشاف ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس معاملہ پہنچا تو آپ نے معن بن زائدہ کو سو (۱۰۰) کوڑے لگوائے اور قید کردیا۔ معن نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا تو آپ نے انہیں پھر سو کوڑے لگائے، انہوں نے پھر کچھ کہنا چاہا تو آپ نے تیسری مرتبہ پھر سو کوڑے لگائے اور پھر جلا وطن کردیا۔ [1] ۲: ایک آدمی کوفہ میں اسلامی بیت المال سے چوری کرتا ہے: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کی سزا کے بارے میں دریافت کیا جس نے بیت المال سے چوری کی ہو تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو اس مال میں ہر ایک کا حق ہے۔ [2] اور اسے تعزیری کوڑے لگوائے۔ [3] ۳: عام الرمادہ (قحط سالی کے سال) میں چوری کی سزا کا حکم: عام الرمادۃ میں حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے غلاموں نے ایک ’’مزنی‘‘ آدمی کی اونٹنی چوری کرلی اور اسے ذبح کرکے کھالیا۔ جب معاملہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ نے غلاموں کو طلب کیا اور انہوں نے محفوظ مقام سے اونٹنی کی چوری کا اعتراف کیا۔ چوری کرنے والے عاقل، بالغ اور مکلفِ شریعت تھے۔ انہوں نے چوری کرنے کی کسی اضطراری ضرورت کا بھی دعویٰ نہیں کیا۔ چنانچہ آپ نے کثیر بن الصلت کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ کاٹیں، لیکن چونکہ آپ قحط سالی اور لوگوں کی بھوک کا مشاہدہ کررہے تھے اس لیے ان کے لیے عذر تلاش کرتے ہوئے ان کے آقا حاطب رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے لگتا ہے تم انہیں بھوکا رکھتے تھے؟ پھر اسی پر بس کیا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم منسوخ کردیا اور حاطب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ’’مزنی‘‘ کو اس کی اونٹنی کی د گنی قیمت یعنی (۸۰۰) آٹھ سو درہم ادا کرو۔ [4] اس طرح آپ نے اضطراری حالت دیکھ کر ان سے چوری کی حد ساقط کردی۔ [5]
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۳۵۔ مصنف عبدالرزاق: ۸/ ۳۴۲۔ [2] سنن البیہقی: ۱۰/ ۴۴۔ موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۳۵۔ [3] موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۳۵۔ [4] القضاء فی خلافۃ عمر، ناصر الطریفی: ۲/ ۸۶۲۔ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۴۶۔ [6] الحلیۃ، أبی نعیم: ۶/ ۱۴۰۔ الطبقات: ۳/ ۔۲۹ اس کی سند صحیح ہے۔