کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 474
کھانے سے پہلے آپ نے اسے کیوں نہیں دے دیا؟ تو آپ نے فرمایا: میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں قسم نہ کھاؤں تو میرے بعد اپنا حق لینے کے لیے اور لوگ بھی قسم نہ کھائیں اور پھر یہی سنت چل پڑے۔[1] لہٰذا جس پر قسم کھانا واجب ہوتا ہے اس کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ ورع وتقویٰ کے پیش نظر وہ قسم نہ کھائے۔ ہم نے مذکورہ واقعہ دیکھ لیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کس طرح قسم کھائی اور جب حق لے لیا تو اس سے تنازل کرلیا۔ عمر رضی اللہ عنہ بعض فریقین سے قسم لینے میں سختی کرتے تھے، مثلاً انہیں ان مقامات پر قسم کھانے کا حکم دیتے کہ جہاں دروغ گوئی کرنے سے ان کے دل کانپ اٹھیں اور وہ جھوٹی قسمیں نہ کھائیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں سے ’’حجر‘‘ (حطیم) میں قسم لی اور کچھ لوگوں سے حجر اسود اور مقام ابراہیم کے پاس قسم لی۔ [2] ۴: اثبات نسب کے جھگڑے میں قیافہ شناسی: قیافہ شناسی ان قوی قرائن میں سے ایک ہے جن کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کی دلیل موجود ہے۔ قیافہ شناسی کا اعتبار کرتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فیصلہ دیا ہے۔ [3] ۵: قرائن: قرائن کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ قرائن کے استنباط وفہم میں قاضیوں کو مختلف زاویوں سے غور کرنا چاہیے، مثلاً مضبوط قرائن میں سے ایک قرینہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ عورت حاملہ ہوجائے۔ پس ایسی حالت میں اس کا حاملہ ہونا اس کے زانیہ ہونے کی دلیل ہے۔ اسی طرح مدت حمل سے کم مدت میں ولادت ہونا بھی اس کے زانیہ ہونے کی دلیل ہے اور قرائن کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دو مردہ لاشیں ایک دوسرے کے اوپر ہوں، پس ان کا ایک دوسرے کے اوپر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جس کی موت پہلے ہوئی ہے وہ نیچے ہے اور جس کی موت بعد میں ہوئی ہے وہ اوپر ہے۔ چنانچہ اسی قرینہ کا اعتبار کرتے ہوئے طاعون عمواس میں عمر رضی اللہ عنہ نے دو شہدائے طاعون میں سے جس کے ہاتھ یا پیر کو دوسرے کے اوپر دیکھا تو اوپر والے کو نیچے والے کا وارث قرار دیا، نیچے والے کو اوپر والے کا وارث نہیں بنایا۔ نیز شراب نوشی کے قوی قرائن میں سے یہ بات ہے کہ اگر آدمی قے کرے تو اس میں شراب پائی جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے آدمی پر شراب نوشی کی حد جاری کی جس کی قے میں شراب پائی گئی۔ [4] ۶: قاضی کا علم: حدود وقصاص کے معاملات میں قاضی کی معلومات اس بات کی دلیل نہیں بن سکتیں کہ وہ انہی بنیادوں پر
[1] سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۲۵۔ موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۳۱۔ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۳۱۔ [3] سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۵۳، ۱۵۰۔ [4] المغنی: ۹/ ۱۵۱۔ موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۳۲۔ [5] یمن کا ایک قبیلہ ہے۔