کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 471
مشورہ، اجتہاد پھر اتفاق۔ اگر ان تینوں ارکان میں سے کسی ایک رکن کی بھی کمی ہو تو قاضی ایک اور مصدر کی طرف رجوع کرے گا اور وہ ہے فیصلوں کے سابقہ دستاویز اور نمونے۔ ۵: فیصلوں کے سابقہ دستاویز اور نمونے: یعنی جن فیصلوں کو خلفاء، صالحین اور ممتاز صحابہ رضی اللہ عنہم نے نافذ کیا ہو اس چیز کو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صدیقی فیصلوں اور آپ کے قاضیوں کے احکامات کے بارے میں صراحتاً ذکر کیا ہے جیسا کہ اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ [1] اور اسی چیز کو علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت واضح طور سے لکھا ہے کہ صحابہ کی رائے ہماری اپنی رائے سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’جن ہستیوں کے آراء ومشورے اتنے بلند مقام تک پہنچے ہوئے ہوں وہ اس لائق ہیں کہ ہمارے لیے ان کی آراء ہماری باتوں سے زیادہ بہتر ہوں اور کیوں نہ ہوں، وہ ایسی آراء ہوتی ہیں، جو نور، ایمان، علم اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے لبریز دلوں سے صادر ہوتی ہیں، امت کی خیر خواہی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے دل ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے مشابہ ہوتے ہیں، ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ چراغ نبوت سے براہِ راست اور اصلی شکل میں ایمان وعمل کی شمعیں جلاتے ہیں۔ اس میں اختلاف واشکال کا ادنیٰ بھی شائبہ نہیں ہوتا۔ کوئی بھی اختلاف اسے گدلا نہیں کرسکتا، لہٰذا دوسروں کے آراء واقوال کو ان برگزیدہ ہستیوں کے آراء واقوال سے قیاس وموازنہ کرنا نہایت غلط وفاسد قیاس ہے۔‘‘ [2] ۶: قیاس: چونکہ صحابہ کے فیصلوں کے سابقہ نمونے اور دستاویز بھی کم ہیں، اس لیے قاضی اگر کوئی نص، اجماع، یا سابقہ نمونے نہ پائے تو اجتہاد پر اعتماد کرے، جیسے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔ [3] اور اجتہاد کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جس مسئلہ میں کوئی نص وارد نہیں ہے اسے اس مسئلہ پر قیاس کرے جو اس سے ملتا جلتا ہو اور اس کے بارے میں نص وارد ہو۔ چنانچہ قیاس اسلامی شریعت اور اسلامی فقہ واحکامات کا چوتھا مصدر ہے۔ اس چیز کو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام بھیجے جانے والے خط میں تحریر کیا تھا: ’’پھر تم معاملات کو قیاس کرو اور ملتے جلتے مسائل کو ڈھونڈو، پھر ان میں سے جسے تم حق سے قریب تر اور اللہ کی رضامندی کا باعث سمجھو اس کے مطابق فیصلہ دو۔‘‘ [4] ۷: رائے: اگر درپیش قضیہ کے لیے کوئی ایسی نص نہ ملے جس پر قیاس کیا جاسکے تو قاضی حق عدل وانصاف
[1] اعلام الموقعین: ۱/ ۵۸۔ تاریخ القضاء فی الإسلام، ص: ۱۲۰۔ [2] إعلام الموقعین: ۱/ ۲۲۴۔ [3] تاریخ القضاء فی الإسلام، ص: ۱۲۰۔ [4] تاریخ القضاء فی الإسلام، ص: ۱۲۲۔