کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 47
’’عمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے عربوں میں ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے تھے۔‘‘ [1]
آپ صاحب حکمت ودانش، بلیغ، عمدہ رائے والے، طاقتور، بردبار، شریف، دلیل میں پختہ اور گفتگو میں واضح الکلام تھے۔ ان خوبیوں نے آپ کو اس لائق بنا دیا کہ آپ دوسرے قبائل سے فخر ومباہات یا نفرت وتحقیر میں قریش کی جانب سے سفیر قرار پائے۔ [2]
ابن الجوزی کا بیان ہے: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذمہ سفارت کا منصب تھا۔ اگر قریش اور دیگر قبائل میں لڑائی چھڑ جاتی تو وہ آپ کو سفیر بنا کر بھیجتے۔ یا ان (قریش) کو اگر کوئی نفرت دلانے والا نفرت دلاتا، یا فخر کرنے والا فخر کرتا تو قریش آپ کو نفرت دلانے اور فخر ومباہات جتانے کے لیے اپنا سفیر بنا کر بھیجتے، اور آپ سے وہ سب خوش رہتے۔ [3]
قریش کا جو بھی رسم ورواج، عبادتیں اور نظام زندگی ہوتا اس کی طرف سے آپ دفاع کرتے، آپ دل کے ایسے مخلص تھے کہ جس بات پر یقین کرلیتے اس کی طرف سے دفاع کرنے میں جان کھپا دیتے۔ یقین کی بنیاد پر دفاع کرنے والی اسی طبیعت ومزاج کی سختی کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی دعوت کے بالکل ابتدائی مرحلے میں اس کی جم کر مخالفت کی، اور انہیں خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ دین، مکی نظام کی بنیادیں نہ ہلا دے، جو بہت ہی مستحکم ہے۔ اور جس نے مکہ کو عربوں میں ایک خاص مقام دیا ہے۔ اس مکہ میں وہ گھر ہے جس کی زیارت کے لیے لوگ آتے ہیں۔ اور پھر قریش کو اسی نے دیگر عربوں میں ایک نمایاں حیثیت دی ہے۔ اسی وجہ سے مکہ روحانی ومادی دولت سے مالا مال ہے۔ اور یہی مکہ کی روز افزوں ترقی اور اس کے سرداروں کی مال داری کا اصل سبب ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے سردارانِ مکہ نے دین اسلام کی بہت مخالفت کی، اور اس پر ایمان لانے والے کمزور لوگوں کو بہت ستایا، ان کمزوروں پر ظلم ڈھانے میں عمر رضی اللہ عنہ انتہائی سخت تھے۔ [4]
آپ زمانۂ جاہلیت میں ایک لونڈی کے اسلام قبول کرلینے پر اس کو اتنا مارتے رہے کہ آپ کے ہاتھ تھک گئے، کوڑا ہاتھوں سے گر گیا، تھک کر آپ رک گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، اور آپ نے انہیں لونڈی کو مارتے دیکھا، تو اس کو آپ سے خرید لیا اور آزاد کردیا۔ [5]
عمر رضی اللہ عنہ جاہلیت میں پلے بڑھے، اور ٹھیٹھ جاہلیت کی زندگی گزاری اور اس کی حقیقت و رسم و رواج سے بخوبی آشنا ہوئے، اور پوری قوت کے ساتھ اس کی طرف سے دفاع کیا۔ لیکن جب اسلام قبول کیا، اس کی خوبی
[1] الفاروق مع النبی ص:۶۔
[2] التاریخ الاسلامی العالم، علی حسن ابراہیم، ص:۲۲۶، الادارۃ الاسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۹۰۔
[3] عمر بن الخطاب، حیاتہ، علمہ، ادبہ۔ د: علی احمد الخطیب، ص:۱۵۳۔
[4] عمر بن الخطاب، د: محمد احمد ابوالنصر، ص:۱۷۔
[5] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب، د: العانی، ص:۱۶۔
[6] تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص:۱/۷، بحوالہ د: العانی ص:۱۶۔