کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 468
۱۳: فردِ جرم ثابت ہونے تک متہم کی تہمت سے براء ت: سیّدناعبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک قافلہ کے ساتھ سفر پر نکلا، جب ہم ’’ذی المروۃ‘‘ پہنچے تو میرے کپڑوں کا صندوقچہ غائب ہوگیا۔ ہمارے ساتھ ایک (متہم) آدمی بھی تھا، اس سے میرے ساتھیوں نے کہا: اے فلاں ان کا صندوقچہ انہیں واپس کردے، اس نے کہا: میں نے نہیں لیا۔ میں لوٹ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے پوچھا: تمہارے ساتھ کون لوگ تھے؟ میں نے سب کو بتایا۔ آپ نے بھی اسی فرد متہم کے بارے میں اندیشہ ظاہر کیا۔ میں نے کہا: امیر المومنین! اگر آپ چاہیں تو میں اس کو باندھ کر لے آؤں۔ آپ نے فرمایا: کیا بغیر کسی ثبوت کے تم اسے باندھ کر لاؤ گے۔ [1] ۱۴: نص شرعی کے مقابلے میں اجتہاد کا عدم جواز: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جب ایسا قضیہ پیش آئے جس کا فیصلہ قرآن وسنت میں نہ ہو تو اس میں خوب خوب غور کرو، پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کرو۔‘‘ [2] یہ چند اہم چیزیں ہیں جن کا ہر قاضی کو بہرحال التزام کرنا ہے۔ ۱۵۔ قاضیوں کا خود کو قضاء کے فیصلے کے تابع کرنا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ وہ پہلے باکمال انسان ہیں کہ اپنی خلافت کے دور شباب میں قاضی کے فیصلہ کے سامنے پوری رضامندی سے جھک جاتے ہیں اور فیصلہ سننے کے لیے پوری خوشی سے قاضی کے سامنے متوجہ ہوتے ہیں اور قاضی کی برحق تعریف کرتے ہیں، گو کہ فیصلہ آپ کے خلاف صادر ہو۔ [3] اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے: ’’آپ نے ایک بدوی سے ایک گھوڑے کے بارے میں بھاؤ کیا ، اسے آزمانے کے لیے اس پر سوار ہوئے، لیکن سوار ہوتے ہی گھوڑا عاجز ہو کر بیٹھ گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنا گھوڑا واپس لو، اس بدوی نے کہا: اب واپس نہیں لوں گا، آپ نے فرمایا: میرے اور اپنے درمیان کسی کو فیصل بنالو۔ اس آدمی نے کہا: شریح کو بناتا ہوں۔ چنانچہ دونوں معاملہ لے کر وہاں پہنچے، جب قاضی شریح نے معاملہ سن لیا تو کہا: اے امیر المومنین! آپ نے جو خریدا ہے اسے لے لیں، یا جتنا آپ نے اسے استعمال کیا اس کا عوض دیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فیصلہ اسی طرح دیا جاتا ہے، اور پھر ان کو کوفہ کا قاضی بنا کر بھیج دیا۔‘‘ [4]
[1] سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۲۰۔ موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۲۹۔ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۸۔ [3] إعلام الموقعین: ۱/ ۸۵۔ [4] إعلام الموقعین: ۱/ ۱۱۱۔ موسوعۃ فقہ عمر، ص: ۷۲۹۔