کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 464
انصاف سے مایوس نہ ہو۔‘‘ اور ایک مرتبہ لکھا: ’’لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ کرو، قریبی ہوں یا دور کے ہوں، سب اس حکم میں یکساں ہیں۔‘‘ اور ایک مرتبہ جب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک باغ کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف دعویٰ پیش کیا تو آپ اس کے بارے میں صحیح فیصلہ نہ سمجھ سکے، تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا ثالثی مقرر کیا، اور دونوں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے گھر آئے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہم آپ کے پاس فیصلہ لینے آئے ہیں‘‘ … اس وقت ان کے گھر ہی میں مقدمات کی سماعت ہوتی تھی … زید بن ثابت اپنے بستر سے اٹھ گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر بٹھانا چاہا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ زید رضی اللہ عنہ نے تکیہ نکال کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا (تاکہ ٹیک لگا کر بیٹھ جائیں) اور کہا: امیرالمومنین! آپ یہاں تشریف لائیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے زید تم نے اپنے فیصلہ کے آغاز ہی میں غلطی کردی، مجھے میرے فریق کے ساتھ بٹھاؤ، پھر وہ دونوں زید رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔ [1] ۶: کمزور کی ہمت افزائی: یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ اس کے دل سے گھبراہٹ دور ہوجائے اور بے خوف ہو کر اپنی بات کرسکے۔ آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’کمزور وغریب کو قریب رکھو تاکہ اس کی ہمت بندھے اور اپنی بات کہہ سکے۔‘‘ [2] ۷: پردیسی کے دعویٰ پر فوري عدالتی کارروائی یا اس کے قیام وطعام کا انتظام کرنا: چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے نام لکھا: ’’پردیسی کا خاص خیال رکھو، کیونکہ اگر اس کو دیر تک رکنا پڑے گا … یعنی اپنا فیصلہ لینے کے لیے بال بچوں سے کافی دنوں تک دور رہے گا … تو اپنا حق چھوڑ کر اپنے (وطن) اہل وعیال میں چلا جائے گا اور اس کی حق تلفی کا ذمہ دار وہ شخص ہو گا (یعنی حاکم) جس نے تاخیر کی۔‘‘ [3] ۸: کشادہ دل اور متحمل مزاج ہونا: آپ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام لکھا: ’’اہل مقدمہ کو ڈانٹنے اورجھڑکنے، اس سے غصے ہونے، چڑچڑانے اور تکلیف دینے سے خود کو بچاؤ، اگر قاضی کو احساس ہوجائے کہ مجھے اِن میں سے کوئی عارضہ لاحق ہے تو جب تک یہ شکایت دور نہ ہو
[1] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۵۔ [2] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۵۔ [3] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۵۔ سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۱۲۔ [4] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۵۔ سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۱۰۔ [5] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ص: ۷۲۵۔ سنن البیہقی: ۱۰/ ۱۰۹۔