کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 457
پانچ اصولوں پر کاربند رہو، تمہارا دین سلامت رہے گا اور بہترین خوش نصیبی حاصل کرو گے۔ جب دو آدمی اپنا قضیہ لے کر آئیں تو مدعی سے گواہ عادل طلب کرو، اور مدعا علیہ سے قطعی حلف لو، غریب کے ساتھ ہمدردی سے پیش آؤ، تاکہ اس کی زبان کھلے اور ہمت بڑھے، پردیسی کا خیال رکھو، کیونکہ اگر بہت دنوں تک اسے رکنا پڑا تو وہ اپنا حق چھوڑ کر وطن لوٹ جائے گا، اور اس کی حق تلفی کی ذمہ داری اس شخص پر ہوگی (یعنی تم پر) جو اس کے ساتھ بے اعتنائی سے پیش آیا۔ مدعا اور مدعی علیہ کو ایک نظر سے دیکھو، جب تک تمہیں صحیح فیصلہ نہ سوجھے فریقین میں سمجھوتہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کرو۔‘‘ [1] نیز الفاظ میں معمولی اختلاف کے ساتھ بالکل ایسا ہی خط معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے نام لکھا: ’’اما بعد… فیصلہ سے متعلق میں تمہیں یہ خط لکھ رہا ہوں، اس میں اپنی اور تمہاری بھلائی کی میں نے پوری کوشش کی ہے، پانچ اصولوں پر کاربند رہو، تمہارا دین سلامت رہے گا اور اس میں تمہیں خوش نصیبی بھی حاصل ہوگی، جب تمہارے پاس جھگڑے کے دونوں فریق آئیں تو مدعی سے مبنی برصداقت دلیل، اور مدعا علیہ سے قطعی حلف لو، اور کمزور کے ساتھ ہمدردی سے پیش آؤ تاکہ اس کی ہمت بندھے اور زبان کھلے، پردیسی کا خاص خیال رکھو ورنہ وہ اپنا حق چھوڑ کر اپنے وطن چلا جائے گا پھر اس کا حق مارنے والا وہی ہوگا جس نے اس سے بے اعتنائی کی، مدعی و مدعا علیہ کو ایک نظر سے دیکھو، اور دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرو، اور جب تک تمہیں صحیح فیصلہ نہ سوجھے فریقین میں صلح کرانے کی ہر ممکن کوشش کرو۔‘‘ [2] اور قاضی شریح کے نام اجتہاد کے بارے میں لکھا: ’’جب تمہارے پاس کوئی قضیہ آئے تو کتاب الٰہی کے مطابق اس کا فیصلہ کرو، پس اگر ایسا معاملہ ہو جس کا فیصلہ کتاب الٰہی میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا فیصلہ کرو اور اگر ایسا معاملہ آجائے جو ان دونوں میں نہ ملے اور نہ کسی صحابی نے اس میں کوئی بات کہی ہو تو دو باتوں میں سے جو مناسب سمجھو کرو۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ : ’’اگر تم مناسب سمجھو تو اجتہاد کرکے اپنی صواب دید پر عمل کرو اور اگر فیصلہ مؤخر کرسکتے ہو تو مؤخر کرو، مؤخر کرنے ہی کو میں تمہارے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ [3]
[1] أعلام الموقعین، ابن القیم: ۱/ ۸۵ [2] أخبار عمر، ص: ۱۷۴