کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 454
 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ : آپ نے انہیں کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا۔ قتادہ رحمہ اللہ ابومجلز سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو کوفہ والوں کا امام مقرر کیا (وہ انہیں نماز پڑھاتے تھے) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کا نگران اور محکمۂ عدل کا قاضی مقرر کیا تھا۔ [1]  سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ : آپ نے ان کو بصرہ اور پھر قادسیہ کا قاضی مقرر کیا تھا۔  قیس بن ابوالعاص القرشی رضی اللہ عنہ : آپ کے دور میں یہ مصر کے منصب قضاء پر فائز کیے گئے۔ اور وہ لوگ جنہیں ریاست کی گورنری کے ساتھ منصب قضاء بھی سنبھالنا تھا ان کے نام یہ ہیں:  نافع الخزاعی رضی اللہ عنہ : مکہ مکرمہ کے گورنر۔ حافظ ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا، اس وقت مکہ میں قریش کے اکابرین موجود تھے۔ پھر ان کو معزول کرکے خالد بن عاص بن ہشام بن مغیرہ مخزومی رضی اللہ عنہ کو وہاں کا امیر مقرر کردیا۔ [2]  یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ : صنعاء کے گورنر تھے۔  سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ : طائف کے گورنر تھے۔  مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ : کوفہ کے گورنر تھے۔  معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما : شام کے گورنر تھے۔  عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ : بحرین وعمان کے گورنر تھے۔  ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ : بصرہ کے گورنر تھے۔  عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ : حمص کے گورنر تھے۔ مذکورہ افراد میں سے کچھ کو آپ نے ریاست کی گورنری کے ساتھ منصب قضاء پر برقرار رکھا، جیسے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ نے کیا، اور کچھ لوگوں کے اختیارات کو صرف گورنری تک محدود رکھا اور محکمہ قضاء سے ان کو دور رکھا، جیسے کہ مغویہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے ساتھ کیا۔ مدینہ نبویہ میں آپ کی طرف سے جن لوگوں کو منصب قضاء پر فائز کیا گیا تھا وہ ہیں: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ۔ چنانچہ نافع روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت کو ’’قضاء‘‘ کے منصب پر فائز کیا اور ان کی تنخواہ مقر رکی۔ [3] اور تیسرے فرد ہیں: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ ۔ [4]
[1] نطام الحکم فی الشریعۃ الإسلامیۃ والتاریخ الإسلامی: ۲/ ۵۳ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ [2] القضاء فی الإسلام، عطیہ مصطفیٰ، ص:۷۷۔ اس ادارہ کو موجودہ دور کی اصطلاح میں ہائی کورٹ کہا جاتا ہے۔ [3] النظام القضائی فی العہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ، القطان، ص: ۴۷