کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 450
چنانچہ آپ کے اس اقدام کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں اور دیگر تمام اقوام کی ضروریاتِ زندگی کے متعدد وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ کو خاص شکل میں منظم کیا اور پھر تہذیب وتمدن کی ترقی کے ساتھ دوش بدوش چلتے ہوئے بعد کے خلفائے راشدین اور دیگر مسلم حکمرانوں نے آپ کے طریقہ کار کی پیروی کی۔ [1] * زرعی ترقی کے لیے جاگیر مقرر کرنا: زمین کو کارآمد بنانے کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں سیاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نافذ کرتے ہوئے خالی پڑی ہوئی زمین کو لوگوں کے لیے الاٹ کردیا۔ چنانچہ آپ نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ’’جرف‘‘ اور ’’قناۃ‘‘ کے درمیان خالی پڑی ہوئی زمین دی۔ [2] مجاعہ بن مرارہ حنفی کے لیے ’’خضرمہ‘‘ (یمامہ کا ایک گاؤں ہے) کی زمین الاٹ کی۔ نیز عیینہ بن حصن فزاری اور اقرع بن حابس تمیمی کو آپ نے ایک بنجر زمین اس مقصد سے دینا چاہی تھی کہ وہ دونوں اسے قابل استعمال بنانا چاہتے تھے، لیکن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے کہ تالیف قلب کے لیے انہیں اب دینے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تالیف قلب کرتے تھے، اس وقت اسلام کمزور تھا، لیکن اب اللہ نے اسلام کو باعزت وغالب کردیا ہے، جاؤ اور جا کر تم دونوں محنت کرو۔‘‘ [3] آپ کی رائے میں یہ بات صاف نمایاں ہے کہ زمین کو کارآمد بنانے کے لیے زمین الاٹ کرنے پر آپ کا اعتراض نہیں تھا بلکہ ان دونوں افراد پر اعتراض تھا کہ اب وہ تالیف قلب کے طور پر مال لینے کے مستحق نہیں ہیں۔ بہرحال عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی سیاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اصلاح وکارآمد بنانے کی غرض سے زمین الاٹ کرنے کے دائرہ کو مزید وسعت دی، اور اعلان کیا: ’’اے لوگو! جس نے کسی بے آباد زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ہے۔‘‘ [4] اس باب میں ضعیف آثار وروایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر لوگوں کے لیے الاٹ کردہ زمین کو متعینہ مدت میں مالک زمین کارآمد نہیں بناسکا تو آپ اس سے زمین واپس لے لیتے تھے۔ نیز ضعیف روایتیں ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ متعینہ مدت تین سال ہوتی تھی اور اس کا شمار اس وقت سے ہوتا تھا جب زمین الاٹ کی جاتی۔
[1] الإدارۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۳۶۴ ۔ [2] الإدارۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۳۶۶۔ [3] الاحکام السلطانیۃ، ص: ۱۴۷۔ [4] شذور العقود فی ذکر النقود، ص: ۳۱، ۳۳۔