کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 45
أین الملوک التی کانت نواھلہا من کل أوب إلیہا راکب یفد ’’کہاں گئے وہ بادشاہ جن کے چشموں سے ہر طرف سے آنے والا قافلہ سیراب ہوتا تھا۔‘‘ حوضا ہنالک مورود بلا کذب لابد من وردہ یوما کما وردوا[1] ’’وہ (موت) ایسا حوض ہے جس پر یقینا ہر کسی کو ایک نہ ایک دن آنا ہے، جیسے کہ وہ لوگ اس پر پہنچے۔‘‘ آپ صرف اپنے باپ کے اونٹوں کو نہیں چراتے تھے بلکہ بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹ بھی چراتے، اس بات کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ نے خود اس وقت کیا جب کہ امیر المومنین ہوتے ہوئے ایک دن آپ کو خیال آیا کہ میں امیر المومنین بن گیا ہوں، اب مجھ سے افضل کون ہے؟ تو آپ اپنے نفس کا غرور توڑنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ عمر بکریوں کا ایک چرواہا تھا، بنی مخزوم سے تعلق رکھنے والی اپنی خالاؤں کے اونٹوں کو چراتا تھا۔ محمد بن عمر مخزومی اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کی منادی کروائی، جب لوگ جمع ہوگئے اور سب نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہا تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا، پھر گویا ہوئے: اے لوگو! میں نے خود کو اس حالت میں پایا ہے کہ بنی مخزوم کی اپنی خالاؤں کے جانوروں کو چرایا ہے، وہ مجھے مٹھی بھر کھجور یا کشمش دے دیتی تھیں اور اسی پر اپنا دن گزارتا، اور وہ دن بھی کیا دن تھے۔ پھر آپ منبر سے نیچے اتر گئے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اے امیر المومنین! آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ صرف خود کو ذلیل کیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابن عوف! تیرا برا ہو، سن! میں تنہائی میں تھا تو میرے نفس نے مجھ کو بڑائی کا احساس دلایا، کہا کہ تو امیر المومنین ہے، تجھ سے افضل کون ہے۔ تو میں نے چاہا کہ اس نفس کو اس کی حیثیت سمجھا دوں۔ اور ایک روایت میں ہے: ’’میں نے اپنے جی میں کچھ (بڑائی) محسوس کی تو میں نے چاہا کہ اسے اسی سے روندڈالوں۔‘‘[2] بلاشبہ اسلام لانے سے پہلے مکہ کی زندگی میں عمر رضی اللہ عنہ کے اس پیشے (گلہ بانی) سے جڑے رہنے نے ان کو
[1] الادارۃ الاسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب، فاروق مجدلاوی ص:۹۰۔ [2] مکہ سے ایک منزل (تقریباً ۱۲ میل) کی دوری پر ایک پہاڑ ہے اور ایک قول کے مطابق ۲۵ کلومیٹر کی دوری پر ایک پہاڑ ہے۔ [3] تاریخ ابن عساکر :۵۲/۲۶۸، طبقات ابن سعد: ۳/۲۲۶، د/ عاطف لماضہ نے اس روایت کے صحیح الاسناد ہونے کی توثیق کی ہے۔