کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 447
خازن (نگران) اور اسے تقسیم کرنے والا بنایا ہے، پھر کہا: بلکہ حقیقت میں اسے اللہ تعالیٰ تقسیم کرتا ہے۔ [1] اور جب آپ نے فارس کی فتوحات سے بیت المال میں بہت زیادہ مال آتے ہوئے دیکھا تو رونے لگے، آپ کو روتا دیکھ کر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: آج تو شکر الٰہی اور خوشی ومسرت کا دن ہے، (آپ روتے کیوں ہیں؟) تو آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں، بے شک اس (دولت) کی جس قوم میں فراوانی ہوئی اس میں باہمی عداوت وکدورت پھوٹ پڑی۔ [2] اسی طرح جب فتح ’’جلولاء‘‘ کے موقع پر اموالِ غنیمت کی کثرت کو دیکھا تو یہ آیت تلاوت کرنے لگے: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ (آلِ عمران:۱۴) ’’لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے، جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے۔‘‘ اور کہا: اے اللہ تو نے جن نعمتوں سے ہمیں مزین کیا ہے اسے پا کر ہم خوش ہی ہوں گے، اے اللہ مجھے توفیق دے کہ اسے جائز مقام پر خرچ کروں اور اس کے شر اور برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ [3] ۳: اموالِ غنیمت کے مصارف (مدات): اموالِ غنیمت کے خمس کی تقسیم خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ للّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ(الانفال:۴۱) ’’اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے۔‘‘ اموالِ غنیمت کے بقیہ چار خمس (۵/۴ ) مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے تھے، شہسواروں کو تین حصے دے جاتے تھے، دو حصے گھوڑے کے اور حصہ شہسوار کا، اور پاپیادہ مجاہدین کو ایک حصہ ملتا تھا۔ [4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کو ملنے والے خمس کے مصارف یہ تھے کہ آپ اسے اپنی ذاتی ضروریات اور اپنی بیویوں پر خرچ کرتے تھے، اور پھر جو حصہ بچ جاتا اسے مفاد عامہ میں یا فقراء و محتاجوں میں خرچ کردیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والے خمس کا دوسرا حصہ آپ کے قرابت داروں یعنی بنو ہاشم اور بنوعبدالمطلب کو … جو اسلام لاچکے تھے اور دعوت نبوی کو
[1] الطبقات الکبرٰی : ۳/ ۲۹۹۔ الخراج، أبویوسف، ص:۵۰۔ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص:۲۱۶۔ الأموال، ابن زنجویہ: ۲/ ۵۷۶۔