کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 446
آپ کا یہ نظریہ تھا کہ بیت المال میں ہر مسلمان کا پیدائش سے لے کر موت تک حق ہے۔ اور آپ نے اپنے اس موقف کا یہ کہتے ہوئے اعلان کیا: قسم ہے اللہ کی جس کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں … آپ نے تین بار یہی کہا … نہیں ہے کوئی مسلمان مگر اس مال میں اس کا حق ہے، وہ اسے دیا جائے یا اس سے روک دیا جائے۔ اس مال کا کوئی شخص کسی سے زیادہ حق دار نہیں ہے مگر مملوک غلام وہ بھی اس میں تمہاری طرح ایک عام فرد ہے، اللہ کی کتاب کی رو سے ہم اپنے مرتبہ پر ہیں، اور اس مقام پر ہیں جہاں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔ لہٰذا آدمی اور اسلام کے راستے میں اس کی آزمائشوں کی رعایت کی جائے گی، آدمی اور اسلام میں اس کی سبقت دیکھی جائے گی، آدمی اور اسلام میں اس کی مال داری، اسی طرح آدمی اور اس کی ضرورت دیکھی جائے گی، اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہا تو صنعاء کی پہاڑی کے چرواہے کو اس مال سے اس کا حق مل کر رہے گا اور وہ اپنی جگہ پر ہی رہے گا، اس سے پہلے کہ وہ کفن دے دیا جائے، یعنی وفات پاجائے۔ [1] اس مقام پر سب سے اہم اس بات کی وضاحت ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عطیات ووظائف کی تقسیم میں مسلمانوں میں برابری کیوں نہیں کی؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت وقرابت، انصار ومہاجرین کے ممتاز صحابہ کی امتیازی شان کی رعایت کرتے ہوئے کیوں واضح طور پر ان کو مالی نوازش میں فوقیت دی؟ اسی طرح اسلام میں سبقت کرنے اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصائب برداشت کرنے کو معیار برتری کیوں قرار دیا؟ ان تمام اشکالات کا جواب یہ ہے کہ آپ کے دورِ خلافت میں جن پاک نفوس کی جماعت نے ان لاتعداد اموال کو حاصل کیا تھا، اسی کے کندھوں پر اسلامی سلطنت کی عمارت کھڑی تھی، اور وہ جماعت شریعت پر سب سے زیادہ کاربند اور اس کے مقاصد کو سب سے زیادہ سمجھنے والی تھی، نیز مال کو خرچ کرنے اور سماجی مفاد عامہ میں اسے استعمال کرنے میں سب سے زیادہ پاک باز ونیک نیت ثابت ہوئی تھی۔ لہٰذا اس جماعت کو مادی طور پر مضبوط کرنا گویا معاشرہ میں اس کے اثرات اور گرفت کو مضبوط کرنا تھا اور یہی اثر ونفوذ اسے اس بات پر زیادہ قادر بناتی کہ وہ پوری دل جمعی کے ساتھ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ واضح رہے کہ آپ نے عطیات ووظائف کی تقسیم میں بعض کو بعض پر برتری دینے والی سیاست میں تبدیلی کرنے اور سب کو یکساں عطیات دینے کا عزم کرلیا تھا، جیسا کہ اپنے آخری دور خلافت میں آپ نے اس کا اظہار یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ اگر میں آئندہ باحیات رہا تو لوگوں کے آخری فرد کو اس کے اوّلین فرد سے (عطیات میں) ملا دوں گا اور سب کے لیے یکساں بیان وقرار نافذ کروں گا۔ [2] اور عام ملکی اموال کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا موقف اس طرح ظاہر کیا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۱۴۔ [2] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۱۴۔ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۱۴۔ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۱۵۔ [5] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۱۵۔ [6] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۲۰۲۔ [7] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۲۰۳۔ الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۲۹۸۔