کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 44
لوگ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔[1]
آپ نے بچپن ہی سے ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا، اور سختی و تنگی کے ماحول میں جوان ہوئے، ایسی سختی کہ عیش و عشرت اور مالداری کی کسی علامت کو جانا ہی نہیں، آپ کے باپ خطاب سختی سے آپ کو چراگاہ کی طرف اونٹ چرانے کے لیے بھیجتے تھے۔ باپ کی اس سختی نے آپ کی ذات پر برا اثر چھوڑا، آپ اسے اپنی زندگی بھر یاد کرتے رہے۔ عبد الرحمن بن حاطب اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں ضجنان[2]میں عمر بن خطاب کے ساتھ تھا، آپ نے مجھ سے کہا: میں اسی جگہ خطاب کے اونٹوں کو چراتا تھا، وہ بہت سخت تھے، میں کبھی اونٹ چراتا اور کبھی لکڑیاں چننے چلا جاتا۔‘‘[3]
چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں یہ مرحلہ سختی کا تھا اس لیے آپ اکثر اسے ذکر کیا کرتے تھے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیا، جب ضجنان پہنچے تو کہا: ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ العلی العظیم‘‘ جسے جو چاہتا ہے، دیتا ہے، میں اسی وادی میں اونی قمیص پہن کر خطاب کے اونٹوں کو چرایا کرتا تھا، وہ بہت سخت تھے، جب میں کام کرتا تو میرے پیچھے لگے رہتے، اگر کوتاہی کرتا تو مارتے، میری حالت ایسی ہو گئی کہ میرے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں رہا۔ پھر آپ نے مثال بیان کی:
لا شئی مما تری تبقی بشاشتہ یبقی الإلٰہ ویردی المال والولد
’’جو کچھ تم دیکھ رہے ہو کسی کی بھی رونق باقی رہنے والی نہیں ہے، صرف اللہ باقی رہے گا اور مال و اولاد ختم ہوجائیں گے۔‘‘
لم تغن عن ہرمز یومًا خزائنہ والخلد قد حاولت عاد فما خلدوا
’’اس (موت کے) دن ہرمز کو اس کے خزانوں نے کوئی فائدہ نہیں دیا اور قوم عاد نے ہمیشہ آباد رہنے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ نہ رہی۔‘‘
ولا سلیمان إذ تجری الریاح لہ والانس والجن فیما بینہا یرد
’’اور نہ سلیمان علیہ السلام زندہ رہے جن کے لیے ہوائیں مسخر تھیں اور انسان و جنات ان کے تابع تھے۔‘‘
[1] الکامل فی التاریخ:۲/۲۱۲۔
[2] تاریخ الامم والملوک، طبری:۵/۱۹۱۔
[3] تاریخ الامم والملوک، طبری:۵/۱۹۲۔
[4] البدایۃ والنہایۃ:۷/۱۴۴۔
[5] الشیخان أبوبکر و عمر، بروایت بلاذری، تحقیق د: إحسان صدقی ص:۲۲۷۔
[6] فرائد الکلام للخلفاء الکرام، قاسم عاشور، ص:۱۱۲۔