کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 437
مؤرخین کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کس سال دواوین ودفاتر کی کارروائی پوری ہوئی۔ طبری کے نزدیک یہ ۱۵ھ کا واقعہ ہے، انہی پر ابن اثیر وغیرہ نے اعتماد کرتے ہوئے یہی بات لکھی ہے، اور دیگر مؤرخین مثلاً بلاذری، واقدی، ماوردی اور ابن خلدون وغیرہ نے اسے محرم ۲۰ھ کا واقعہ بتایا ہے۔ [1] راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰ھ میں اس کی کارروائی مکمل ہوئی، اس لیے کہ ۱۵ھ میں قادسیہ کی جنگ لڑی گئی اور اس وقت تک عراق، شام اور مصر کی فتوحات مکمل نہیں ہوئی تھیں۔ [2] عمر رضی اللہ عنہ نے اموالِ غنیمت کی تقسیم میں صدیقی طریقہ کار کے خلاف عمل کیا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اموالِ غنیمت کو برابر تقسیم کیا، جب کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی اسلام میں سبقت، جہاد میں نمایاں کردار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وتائید کو مدنظر رکھتے ہوئے فرق مراتب کے لحاظ سے ان میں عطیات کو تقسیم کیا۔ [3] عمر فاروق رضی اللہ عنہ دور صدیقی ہی میں فرق مراتب کے لحاظ کے قائل تھے، چنانچہ جب آپ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ سب لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرتے ہیں تو ان سے کہا: کیا جس نے دو ہجرتیں کیں، اور دو قبلوں کی طرف نماز پڑھی اس کے اور جس نے تلوار کے خوف سے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، دونوں کے درمیان برابری کرتے ہیں؟ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ان کا عمل اور اس کا بدلہ اللہ کے سپرد ہے۔ دنیا تو مسافر کو اس کے گھر تک پہنچانے کے لیے ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: لیکن میں تو (ابتدا میں) جس نے اللہ کے رسول سے جنگ لڑی، انہیں ان لوگوں کا درجہ نہیں دوں گا جنہوں نے آپ کی نصرت وتائید میں آپ کے ساتھ جنگ لڑی۔ [4] چنانچہ آپ نے عطیات کے مستحقین کو چند درجات ومراتب میں تقسیم کردیا:  اسلام میں پیش پیش رہنے والے، جن کی سبقت کی وجہ سے مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔  مسلمانوں کے لیے مفاد ومنافع فراہم کرنے والے، جیسے کہ حکام اور علماء جو مسلمانوں کو دین ودنیا کے فوائد پہنچاتے ہیں۔  مسلمانوں کے نقصانات ومصائب کو دفع کرنے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے، جیسے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مسلمان فوجی، جاسوس اور دیگر خیر خواہ۔  نادار اور ضرورت مند لوگ۔ [5] اموال کی تقسیم میں آپ کی سیاست آپ کے اس قول سے مترشح ہے کہ کوئی آدمی اس مال کا دوسرے سے
[1] الطبقات، ابن سعد: ۳/ ۳۰۰، ۳۰۱۔ یہ خبر صحیح ہے۔ [2] مقدمہ ابن خلدون، ص: ۲۴۴۔ الخراج، أبویوسف، ص: ۴۸،۴۹۔ [3] الأحکام السلطانیہ، ص: ۲۲۶، ۲۲۷۔ فتوح البلدان، ص: ۴۳۶۔ [4] الأحکام السلطانیۃ، ص: ۲۲۶۔ تاریخ الإسلام السیاسی: ۱/ ۴۵۶۔ [5] الأحکام السلطانیۃ، ص: ۲۲۶۔ سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۵۸۔