کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 434
چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی، جس دن دو جماعتیں مقابل ہوئیں اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ خلافت فاروقی میں مفتوحہ علاقوں کی توسیع اور ان کی اقتصادی ومعاشی خوش حالی کی وجہ سے اموالِ غنیمت کی بہتات ہوگئی، روم وفارس کے فوجی جرنیل پورے کروفر کے ساتھ میدان جنگ میں اترتے اور ان سے چھینا ہوا مال مسلمانوں کا دامن بھر دیتا، کبھی کبھی ان اموال کی قیمت پندرہ ہزار(۱۵،۰۰۰) اور تیس ہزار(۳۰،۰۰۰) درہم تک پہنچ جاتی۔[1]آپ کے عہد میں مدائن، جلولاء، ہمدان، ری اور اصطخر جیسے بڑے بڑے شہر فتح کیے گئے اور مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال لگا، جیسے کسریٰ قالین (زری) جو (۳۶۰۰) مربع گز کا تھا وہ سونے اور قیمتی نگینوں سے منقش کیا ہوا تھا، پھلوں کی تصویریں ہیرے وجواہر اور بیل بوٹے ریشم سے بنائے گئے تھے، بہتی نہر کی تصویر کشی سونے سے کی گئی تھی، وہ قالین بیس ہزار(۲۰،۰۰۰) درہم میں فروخت کیا گیا، جلولاء اور نہاوند سے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات کی شکل میں بہت سے اموال غنیمت پر مسلمان قابض ہوئے، صرف جلولاء کے مالِ غنیمت کا خمس چھ ملین درہم تھا۔ [2] اموالِ غنیمت میں سب سے عظیم چیز جو مسلمانوں کے ہاتھ لگی وہ قابل زراعت زمینیں تھیں، جنہیں عمر رضی اللہ عنہ نے ملکی مفاد عامہ کے لیے وقف کردیا، نیز وہ غیر آباد (خالصہ) زمین مسلمانوں کو غنیمت میں ملی جس کے باشندے جنگ میں قتل کر دیے گئے، یا وہاں سے بھاگ نکلے، کسریٰ اور اس کی حکومت کی جائدادیں بھی غنیمت میں ملیں، اس کے غلہ جات کی آمدنی کو بیت المال میں ملکی مفاد کے لیے وقف کر دیا گیا، اور بیان کیا جاتا ہے کہ بعد کے ایام میں اس کے غلہ جات سے آمدنی کی رقم سات ملین درہم تک پہنچ گئی تھی۔ خلاصہ یہ کہ اموالِ غنیمت کی کثرت ہوگئی، اور اس نے مسلمانوں اور اسلامی ملک کو مال دار، اور ان کے معیار معیشت اور معاشرت کو بلند کردیا، خلافت عثمانی میں اس کے آثار وبہترین نتائج خوب واضح طور پر سامنے آئے۔ [3] بہرحال یہ تھے عہد فاروقی میں ملکی آمدنی کے چند اہم ذرائع جن کا بیان یہیں پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی بیت المال اور دواوین (رجسٹر ودفاتر) کا انتظام : بیت المال اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ساری ملکی آمدنی جمع ہوتی ہے اور جہاں سے خلفاء، فوج، قضاۃ (جج ومنصف)، عمال وافسران کی تنخواہوں اور ملک کی دیگر عام وخاص ضروریات کی تکمیل کی جاتی ہے۔ [4]
[1] سیاسۃ المال فی الاسلام، ص: ۱۱۳۔ [2] تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ، د/ جمیل عبداللّٰه المصری، ص: ۳۲۲۔ [3] الخراج، أبویوسف، ص:۱۹۔ بحوالۃ عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۱۸۳۔