کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 432
گویا یہ برابر کے معاملہ کا آغاز تھا اور ذمیوں پر نصف عشر یعنی (۲۰/۱ ) اس لیے مقرر کیا تاکہ ان میں اور مسلمانوں میں فرق ہوسکے، نیز بنو تغلب کے نصاریٰ کی بزبانِ خود مطلوبہ جزیہ کی تنفیذ تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں سے لی جانے والی زکوٰۃ سے دوگنا دینے کے لیے ہم خوشی خوشی تیار ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اور مذکورہ فاروقی ہدایت میں مسلمانوں پر جو مقدار مقرر کی گئی ہے وہ زکوٰۃ کے قائم مقام ہے، اور سامانِ تجارت میں زکوٰۃ کا نصاب معلوم ومعروف ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ نے سب سے پہلے زکوٰۃ (ودیگر سرکاری محصولات) کی وصول یابی کے لیے سب سے کمتر حد متعین کی، اور جب تک راس المال اپنی اصلی حالت پر باقی ہو، اور اس کے ذریعہ سے گردش کرنے والے سامان کی قیمت راس المال سے زیادہ نہ ہو، تو اگرچہ راس المال کے ذریعہ سے سامانِ تجارت کی گردش ہوتی رہے سال گزرنے کے بعد ہی اس سے زکوٰۃ لی جائے گی، مسلمانوں اور ذمیوں سے اسے کئی مرتبہ نہیں وصول کیا جائے گا۔ برابری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آپ نے یہ پالیسی اختیار کی کہ جب غیر مسلم، مسلمانوں سے وصول کرنے والا کسٹم معاف کردیں گے تو اسی اعتبار سے مسلمان بھی اسلامی حکومت میں آنے والے کافر تاجران سے کسٹم معاف کردیں گے۔ اسی طرح اگر وہ مکمل طور پر اپنے ہاں سے اس نظام کو ختم کردیں گے تو مسلمان بھی اپنے یہاں سے مکمل طور پر اسے ختم کردیں گے، موجودہ دور کی حکومتیں بھی اسی پالیسی پر عمل کرتی ہیں اور اسی کو عصر حاضر میں ’’کسٹم کی پابندیاں ختم‘‘ کرنے کا نام دیا جاتا ہے۔ [1] بسا اوقات جب مسلمانوں کو دوسرے ممالک سے آنے والے اور وہاں کی تیار کردہ بعض مصنوعات کی سخت قلت ہوتی ہے تو اس سامان کو کثرت سے درآمد کرنے کے لیے تاجروں سے وصول کیے جانے والے کسٹم کو کم یا اسے کسٹم سے بالکل آزاد کردیا جاتا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے عملاً نافذ کیا، آپ نے اپنے امراء کو حکم دیا تھا کہ جب غیر مسلم تاجر تیل اور غلہ جات لے کر حجاز میں داخل ہوں تو ان سے نصف عشر یعنی (۲۰/۱ ) کسٹم وصول کریں، اور ایسا بھی ہوا کہ آپ نے کبھی کبھی ان سے کسٹم کو بالکل معاف ہی کردیا۔ چنانچہ بروایت زہری عن سالم عن ابیہ عن عمر، وارد ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ’’نبطیوں‘‘ سے روئی میں عشر (۱۰/۱ )، اور گیہوں وکشمش میں نصف عشر (۲۰/۱ ) وصول کرتے تاکہ مدینہ تک زیادہ سے زیادہ مال پہنچ سکے۔ [2] خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مالیاتی نظام میں اصول سازی کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ
[1] الخراج، أبویوسف، ص: ۱۴۵، ۱۴۶۔ سیاسۃ المال، ص: ۱۲۸۔ [2] التجارۃ وطرقہا فی الجزیرۃ العربیۃ، د/ محمد العمادی، ص: ۳۳۲۔ [3] الحیاۃ الاقتصادیۃ فی العصور الإسلامیۃ الاولیٰ، ص: ۱۰۱۔ [4] شرح السیر الکبیر: ۵/ ۲۱۳۳، ۲۱۳۴۔ الحیاۃ الاقتصادیۃ، ص: ۱۰۱۔