کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 431
نے جواب لکھا: تم بھی ان سے اسی طرح وصول کرو جس طرح وہ تم سے وصول کرتے ہیں اور ذمیوں سے نصف عشر (۲۰/۱ ) وصول کرو، اور مسلمانوں کے پاس دو سو درہم ہو جانے کے بعد ان کے ہر چالیس درہم پر ایک درہم لو۔ دو سو درہم سے کم رہنے پر ان سے کچھ نہ لو۔ جب دو سو درہم ہوجائے تو اس میں پانچ درہم وصول کرو اور اگر اس سے زیادہ ہوجائے تو اسی حساب سے لیا کرو۔ [1] اس جدید اسلامی قانون نے بین الاقوامی سطح پر تجارتی منڈی کو منظم کیا اور پھر اسلامی تجارت نے تجارت کی دنیا میں خوب خوب فائدہ اٹھایا، اس لیے کہ عالمی تجارت کے لیے اسلامی سلطنت کے دروازے کھل گئے اور دنیا کے گوشے گوشے سے اسلامی سلطنت تک سامانِ تجارت آنے لگا، پھر فطری طور پر مسلم وغیر مسلم تاجروں کو دنیا کے ہر خطے سے اموال کے درآمد و برآمد کرنے میں کافی حوصلہ ملا، بشمول جزیرہ عرب، اسلامی سلطنت کے اندرون ملک تجارتی مراکز کافی متحرک ہوگئے اور جزیرہ عرب کی ریاستوں سے دیگر اسلامی ریاستوں کو آنے جانے والے تجارتی قافلے رواں دواں ہوگئے۔ اسی طرح اسلامی سلطنت کی بندرگاہیں ہندوستان، چین اور مشرقی افریقہ سے آنے والی قیمتی ونفیس باربردار کشتیوں کا استقبال کرنے لگیں، خلافت راشدہ اور بنو امیہ کے دور میں ترقی کا یہ سماں بالکل صاف طور پر نظر آیا۔ [2] عہد فاروقی میں کچھ کسٹم آفیسران مقرر تھے جو اسلامی سلطنت کے حدود سے گزرنے والے اموال تجارت سے زکوٰۃ وصول کرتے تھے اور اس میں نصاب وسال گزرنے کا اعتبار کرتے تھے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے عراق کا محصل (زکوٰۃ وصول کرنے والا آفیسر) بنا کر بھیجا اور کہا: جب ایک مسلمان کا مال دو سو درہم تک پہنچ جائے تو اس سے پانچ درہم وصول کرو اور جب دو سو سے زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس درہم پر ایک درہم لو۔ [3] شیبانی نے لکھا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زیاد بن جریر کو اور دوسرے قول کے مطابق زیاد بن حدیر کو ’’عین التمر‘‘ کا محصل بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ ان کے مال سے ربع عشر یعنی (۴۰/۱ ) وصول کریں، اور اہل ذمہ سے … اگر وہ اپنے اموال کو تجارت میں استعمال کرتے ہوں … نصف عشر یعنی (۲۰/۱ ) اور حربی کفار سے عشر یعنی (۱۰/۱ ) اور آپ نے کسٹم وصول کرنے والے کی تنخواہ کسٹم آمدنی سے مقرر کی۔ [4] خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ سرکاری کسٹم کے بارے میں جو شخص غور کرے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ نے غیر مسلم تاجر پر عشر (۱۰/۱ ) اس لیے مقرر کیا کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا بھی اسی طرح معاملہ تھا،
[1] الخراج، أبویوسف، ص: ۲۷۱۔ اقتصادیات الحرب، ص: ۲۲۳۔ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام، ص: ۱۲۸۔ [3] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، قلعجی، ص: ۶۵۱۔ [4] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، قلعجی، ص: ۶۵۱۔