کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 430
کا تعلق ملکی درآمدات سے ہو، یا برآمدات سے۔ یہ نظام موجودہ دور کے کسٹم محصول سے قریب تر ہے۔ اس محصول کو وصول کرنے والے ذمہ دار کو ’’عاشر‘‘ (کسٹم آفیسر) کہا جاتا ہے۔ [1] عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صدیقی میں اس ٹیکس کا کوئی وجود نہ تھا، اس لیے کہ وہ عرصہ اسلام کی دعوت، اس کی نشر واشاعت کے لیے جہاد اور اسلامی سلطنت کی تعمیر وقیام کا عرصہ تھا، لیکن جب امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوگیا، مشرق ومغرب میں اس کی سرحدیں پھیل گئیں، پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی لین دین کو فروغ ملا اور مفاد عامہ کی ضرورتیں بھی بین الاقوامی تعلقات کی متقاضی ہوئیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ جس طرح حربی کفار (غیر مسلمین جن کے ساتھ کوئی صلح ومعاہدہ نہیں) اپنے ملک میں آنے والے مسلمان تاجروں سے کسٹم وصول کرتے ہیں، بالکل اسی طرح برابر کا معاملہ کرتے ہوئے جو غیر مسلم تاجر اسلامی ملک میں آئیں ان سے کسٹم وصول کیا جائے۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ [2] اسلام میں کسٹم محصول کا نظام سب سے پہلے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے نافذ کیا اور اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ باشندگان ’’منبج‘‘ اور جو لوگ ’’بحر عدن‘‘ کے اس پار رہتے تھے سب نے عمر رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی کہ وہ لوگ عربوں کی سرزمین میں کسٹم کی ادائیگی کرتے ہوئے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے اس سلسلہ میں دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، اور پھر سب نے اجازت دینے پر اتفاق کرلیا۔ چنانچہ اسی اعتبار سے آپ رضی اللہ عنہ کو غیر مسلم تاجروں سے سب سے پہلے کسٹم وصول کرنے والا کہا گیا۔ البتہ آپ نے یہ تحقیق کرنا مناسب سمجھا کہ جب مسلمان تاجر دیگر غیر اسلامی ممالک کی سرحدوں سے گزرتے ہیں تو وہ ممالک کتنا کسٹم وصول کرتے ہیں، آپ نے مسلمانوں سے پوچھا کہ جب تم حبشہ والوں کی سرزمین سے گزرتے ہو تو تم سے کیا وصول کیا جاتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ساتھ جو سامانِ تجارت ہوتا ہے اس کا دسواں حصہ وہ لیتے ہیں، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ان سے اسی طرح وصول کرو جس طرح وہ تم سے وصول کرتے ہیں۔ [3] نیز آپ نے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب تم غیر مسلموں (حربیوں) کے ملک سے گزرتے ہو تو وہ تم سے کتنا ٹیکس وصول کرتے ہیں؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ۱۰/۱ یعنی دسواں حصہ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسی طرح تم بھی ان سے وصول کرو۔ [4] روایت کیا گیا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ ہمارے کچھ مسلمان تاجر دار الحرب میں تجارت کرنے جاتے ہیں اور وہ ان سے عشر (۱۰/۱ ) وصول کرتے ہیں۔ آپ
[1] الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد أمیر المومنین عمر بن الخطاب، ص: ۱۳۲۔ [2] الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد أمیر المومنین عمر بن الخطاب، ص: ۱۳۵۔ [3] اہل الذمۃ فی الحضارۃ الإسلامیۃ، ص: ۶۳