کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 427
مسلمان حاکم سے ان کا یہ واجبی تقاضا ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں سے قطع نظر وہ بذاتِ خود اختلاف کی کھائی کو پاٹنے، اور متضاد نظریات کو قریب تر کرنے کی پوری کوشش کرے، تاکہ مسلمانوں کو درپیش اختلافی قرارداد میں شرعی حکم تک لے جاسکے۔ [1] @ زیر بحث مسئلہ میں خلیفہ اور آپ کی رائے سے اتفاق نہ کرنے والے صحابہ کے درمیان باہمی اظہار خیال، اور پھر دوران اجتہاد ہر ایک کا شرعی نصوص کو اپنی بات کی تائید میں پیش کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ عام سیاسی قراردادوں کے لیے اظہار خیال اور خاص طور پر مسلمانوں کی مصلحتوں ومفادات سے وابستہ خیالات میں قطعی فیصلہ ان خیالات کے حق میں ہوگا جن پر شرعی نصوص سے دلیل قائم ہو، یا ان سے مستنبط ہونے والے مسائل پر مشتمل دیگر ایسی کتب مصادر سے ان کی دلیل ہو جو اپنے مشتملات وعناصر میں شرعی دلائل ہی پر مبنی ہوں۔ @ احکام شرعیہ اور تشریعی مصادر کی سمجھ کے لیے خلیفۃ المسلمین کا اسلام میں سبقت لے جانے والے ممتاز علماء صحابہ کی طرف رجوع کرنا، اور پھر صحابہ کا پورے خلوص وللہیت سے خلیفہ کی خیر خواہی کے ساتھ اسے جواب دینا اس بات کی طرف خاص اشارہ ہے کہ ممبران مجلس شوریٰ کی مخصوص صفات ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ پس ممبران کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی فقہ وفہم، ورع وتقویٰ، اور ذکاوت ودانائی سے آراستہ ہوں، اپنے مقام وکردار کے بارے میں صحیح شعور رکھتے ہوں، اس سے بھی واضح وبامعنی تعبیر میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف ہاں میں ہاں ملانے والے نہ ہوں، بلکہ ان کی خصلت یہ ہو کہ حق بات اور صحیح کام کے لیے ڈٹ جانے والے ہوں، اس کے بارے میں حاکم یا غیر حاکم کسی کی ملامت کی پروا نہ کریں اور نہ خوف کھائیں۔ @ اس مقام پر یہ اہم فائدہ بھی نہ رہ جائے کہ مفتوحہ زمین کی عدم تقسیم سے متعلق قرار داد پاس کراتے ہوئے جو کچھ واقع ہوا اس نے اپنے بعد والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ چھوڑا ہے، جسے آدابِ گفتگو کی رعایت کرتے ہوئے حجت کرنے، اخلاقیات کی رعایت کرتے ہوئے معاملات میں بحث ومباحثہ کرنے، اور اس کے مختلف گوشوں پر غور وخوض کرنے میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے براہِ راست یا بالواسطہ اسی وقت سے ملحوظ رکھا جب سے قرار داد پاس کرنے کی فکر پیدا ہوئی، اور ان آداب کی رعایت کرنے میں عمر رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے، باوجودیکہ بیشتر صحابہ آپ کی رائے کے مخالف تھے۔ [2] بلکہ آپ نے واضح کردیا کہ حاکم بھی مجلس شوریٰ کا محض ایک عام فرد ہے اور جس بات کی حقانیت ودرستی پر آپ کو اعتماد تھا، اسے قرآنِ مجید کے حوالے