کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 421
خیبر کی زمین کو فاتحین میں تقسیم کیا تھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو دلیل بنا کر یہ کہنا کہ اگر حاکم وقت بذریعہ جنگ ملنے والی مفتوحہ زمین کو تقسیم نہ کرے تو اس کا فیصلہ قابل قبول نہ ہوگا، ایک بڑی غلطی ہے اور خلفائے راشدین کے حق میں سخت گستاخی ہے کیونکہ خیبر کی زمین کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تقسیم کے جواز پر دلالت کرتا ہے، وجوب پر نہیں۔ اگر تقسیم عدم وجوب پر ہمارے سامنے کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تو خود خلفائے راشدین، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کا عمل عدم وجوب کے لیے دلیل بن سکتا تھا، لیکن اس سے قطع نظر بطور دلیل ہمارے سامنے دور رسالت کا یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ مکہ بذریعہ جنگ فتح کیا گیا … جیسا کہ بے شمار صحیح احادیث سے ثابت ہے، بلکہ سیرت ومغازی کے مؤرخین کے نزدیک یہ بات تواتر کی حد تک پہنچتی ہے … چنانچہ جب اہل مکہ نے صلح حدیبیہ کا عہد توڑ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مکہ کے قریب ’’ مر الظہران‘‘ میں پڑاؤ ڈالا، لیکن مکہ والوں میں سے کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی آپ نے اپنے کسی آدمی کو ان کے پاس صلح کے لیے بھیجا، البتہ ابوسفیان مسلمانوں کی جاسوسی کے لیے باہر نکلا تھا۔ اسے عباس رضی اللہ عنہ نے گرفتار کرلیا اور بطور قیدی لائے اور حاصل کلام یہ کہ عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو امان دے دی اور وہ مستامن کے حکم میں ہوگیا اور اس کے بعد وہ اسلام لے آئے اور مسلمان بن گئے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کفار مکہ کی اجازت کے بغیر ابوسفیان اسلام لے آنے کے بعد مصالحت کرلیں؟ میری بات کی مزید وضاحت و تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ: (( مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَلْقَی السِّلَاحَ فَہُوَ آمِنٌ ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہٗ فَہُوَ آمِنٌ۔))[1] ’’جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اسے امان ہے، جو اسلحہ پھینک دے اسے امان ہے اور جس نے اپنا دروازہ بند کرلیا اسے امان ہے۔‘‘ یہ حدیث بتاتی ہے کہ آپ نے اس شخص کو امان دی جس نے آپ سے قتال نہیں کیا، اگر اہل مکہ نے صلح کی ہوتی اور وہ معاہد ہوتے تو انھیں اس بات کی ضرورت نہ تھی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اہل مکہ کو ’’طلقا‘‘[2] (آزاد) کہا۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ وغیرہ جیسے لوگوں کی طرح قید سے رہائی دے دی۔ جنگ کے ذریعہ مکہ فتح ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ نے اس موقع پر مردوں اور عورتوں کے ایک مخصوص گروہ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
[1] الخراج، أبویوسف، ص: ۶۷۔ اقتصادیات الحرب، ص: ۲۱۷ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام فی عہد عمر، ص: ۱۰۵ [3] اخبار عمر، ص: ۲۱۰