کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 420
آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا ان بڑے شہروں کے لیے اسلامی فوج، اور ان کے لیے سامان رسد کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر میں اس زمین اور اس کی شادابی کو فاتح مجاہدین میں تقسیم کردوں تو بھلا بتاؤ کہ ان اخراجات کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ تمام شرکائے مجلس نے یک زبان ہو کر اتفاق ظاہر کیا اور کہا کہ آپ کی رائے ہی درست ہے، آپ نے کیا ہی بہترین بات کہی اور کیا ہی بہترین رائے پیش کی، سچ ہے کہ اگر ان سرحدوں پر اسلامی فوج نہ بٹھائی گئی، شہروں میں پولیس ونگران نہ مقرر کیے گئے اور ان کے لیے روزی ووظیفہ اور سامان رسد کا انتظام نہ کیا گیا تو غیر مسلم افراد اپنے ملکوں میں واپس لوٹ جائیں گے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اگر میں مفتوحہ زمین مجاہدین میں تقسیم کردوں تو ان میں سے مالداروں کے درمیان وہ بار بار گھومتی رہے گی، اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کو کچھ نہ ملے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فے میں ان کا حق بتایا ہے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ(الحشر:۱۰) ’’یعنی جو ان مہاجرین وانصار کے بعد مسلمان آئیں گے ان کے لیے (مال فے میں) حق ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: آیت کریمہ کا حکم قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کو شامل ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر ممتاز ومشاہیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زمین کی عدم تقسیم پر متفق ہوگئے۔ [2] مذکورہ واقعہ میں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے ساتھ جس طرح گفتگو کی ہے اس سے مناظرہ کا ایک بہترین فاروقی اسلوب سامنے آتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ عراق کی قابل زراعت زمین کے لیے جو بحث وگفتگو ہوئی اور آپ نے صحابہ سے جو بات کہی اس میں آپ نے کتنے بہترین انداز میں با وزن دلیل، درپیش مسئلہ کی نزاکت کی منظر کشی، اور فریق مخالف کی صلح ومصالحت کو یکجا کردیا۔ آج کے دور میں اگر کوئی نامور سیاسی لیڈر، اور پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے کے آداب واسلوب کا ماہر اپنی تقریر کے ذریعہ سے ممبرانِ پارلیمنٹ کو راضی کرکے کوئی منصوبہ یا بجٹ پاس کروانا چاہے تو فاروقی طرز تعبیر سے زیادہ دقیق اور پر حکمت، نیز فاروقی اسلوب سے بہتر کوئی اسلوب نہیں پیش کرسکتا۔ مزید برآں آپ کی امتیازی صفت یہ تھی کہ آپ ایسے مواقع پر بھی اپنی بات میں سچے ہوتے تھے، آپ کے اندر سیاسی چال بازی اور غلط بیانی نہیں تھی، آپ نے اپنی بات اتنی صداقت اور وضاحت سے پیش کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ [3] کیا خراجی زمین کے بارے میں فاروقی موقف سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تھا؟ یہ کہنا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے خراج کی زمین کو تقسیم نہ کرکے سنت نبوی کی مخالفت کی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے