کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 419
پس آیاتِ کریمہ کا حکم مہاجرین وانصار کے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کو شامل ہے، اور تمام مسلمان مال فے کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اسی زاویۂ اجتہاد کے پیش نظر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں زندہ رہا تو صنعاء کے چرواہے کو بھی اس مال فے سے اس کا حصہ ضرور پہنچاؤں گا، درآحالانکہ اس کا خون اس کے چہرے پر نظر آئے گا۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح الفاظ ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بعد میں آنے والے ان مسلمانوں کا کیا ہوگا جو دیکھیں گے کہ مفتوحہ زمین کسانوں کے درمیان تقسیم کی جاچکی ہے اور وراثت در وراثت اس پر قبضہ چلا آرہا ہے، میں اس بات کو کبھی نہ پسند کروں گا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر آپ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے، اراضی اور اس کی ہریالی وشادابی تو اللہ نے ان کو غنیمت کے طور پر دی ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صحیح کہہ رہے ہو، لیکن میں اسے تقسیم کرنے پر راضی نہیں ہوں۔ اللہ کی قسم میرے بعد کوئی بھی ملک فتح ہوگا تو اس کی مفتوحہ ملکیت میں بڑی بدنظمی ہوگی، بلکہ ممکن ہے وہ فتح مسلمانوں کے لیے ایک بوجھ بن جائے۔ لہٰذا سنو! اگر عراق کی زمین اور عجمی کسانوں اور شام کی زمین کو تقسیم کردیا جائے گا تو سرحدوں کے عجمی کسانوں کی حفاظت کا کیا ذریعہ ہوگا؟ شام اور عراق کی اراضی سے اس شہر اور دیگر شہروں کی بیواؤں اور عورتوں بچوں کو کیسے فائدہ ملے گا؟ لیکن مجاہدین نے عمر رضی اللہ عنہ سے کافی بحث کی اور کہا: اللہ نے ہماری تلواروں کے ذریعہ سے ہمیں جو مالِ فے دیا ہے آپ اسے ان لوگوں پر وقف کررہے ہیں جو ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں ہوئے، اور نہ انہیں دیکھا ہے۔ آپ اسے مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو دے رہے ہیں حالانکہ وہ شریک جہاد نہیں ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ سن کر اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے کہ میری یہی رائے ہے۔ مجاہدین صحابہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے مشورہ لے لیجیے، چنانچہ آپ نے اوس وخزرج کے دس مشاہیر واشراف انصار کو بلوایا اور ان کو خطاب کرتے ہوئے کہا: میں تم جیسا ایک عام آدمی ہوں، اور آج آپ لوگ حق بات کہنے کے لیے آئے ہیں، جس نے میری مخالفت کی مخالفت کی، اور جس نے میری تائید کی تائید کی، میں نہیں چاہتا کہ جو میری رائے اور خواہش ہے تم بھی اسی کے قائل ہوجاؤ۔ پھر فرمایا: آپ لوگوں نے ان لوگوں (مجاہدین) کی بات سن لی ہے ان کا خیال ہے کہ میں ان پر ظلم اور ان کی حق تلفی کررہا ہوں، حالانکہ میرے خیال میں کسریٰ کی زمین کے بعد اب کسی زمین کی فتح باقی نہیں رہی، اور اللہ نے ہمیں حکومت کسریٰ کے اموال، اراضی، اور شادابی وہریالی کو غنیمت میں عطا کردیا، لہٰذا میں نے (غیر منقولہ) اموال کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیا، غنیمت کا خمس نکال کر ان کے مصرف میں لگا دیا اور مفتوحہ زمین کے بارے میں میں نے یہ فیصلہ کیا کہ زمین کو اس کی ہریالی وشادابی کے ساتھ مفتوحہ اقوام کے ہی قبضہ میں رہنے دوں اور ان سے زمین کے بدلہ خراج اور افراد کے بدلے جزیہ (لگان) لیتا رہوں۔ وہ اس کی ادائیگی کرتے رہیں گے اور وہ مسلمان مجاہدین، عورتوں، بچوں اور آئندہ نسلوں کے لیے مستقل مالِ فے ہوجائے گا۔