کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 416
آمدنی جو بیت المال میں جائے اسے خراج کہا جاتا ہے اس معنی کے اعتبار سے فے، جزیہ اور کسٹم آمدنی وغیرہ پر بھی خراج کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ دوسرے خصوصی معنی جس کا مطلب ہے کہ جنگ کے ذریعہ سے مفتوحہ اراضی کی وہ آمدنی جسے حاکم وقت نے مسلمانوں کے مفاد عامہ میں ہمیشہ کے لیے وقف کردیا ہو جیسا کہ سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عراق اور شام کی قابل زراعت زمین کے ساتھ کیا تھا۔ [1] علامہ ابن رجب حنبلی کا قول ہے کہ خراج کو اجارہ (کرایہ) اور قیمت پر قیاس نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا اپنا مستقل مسئلہ ہے، اسے دوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔[2] عظیم ترین فتوحات اور خاص طور سے روم وفارس کی دو عظیم قوتوں کے زوال کے بعد جب اسلامی قوت وشوکت کا غلبہ ہوگیا تو اسلامی سلطنت کی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوگئے اور اس کے مصارف کی بھی کثرت ہوگئی۔ اسلامی سلطنت کی طرف اٹھتی ہوئی حاسدانہ نگاہوں سے اس کے وجود اور عزت وقوت کی حفاظت، عوام وخواص کے مفاد کی ضمانت، اور اس کی بقا کے لیے حکمت وبھلائی پر مبنی مالیاتی نظام کی ضرورت تھی۔ چنانچہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے مفاد عامہ کے استقرار کے لیے ایک مستحکم اور مستقل آمدنی کی ضرورت کو محسوس کیا اور پھر خراج کو اس مقصد کے لیے مستقل آمدنی قرار دیا۔ فاتح مجاہدین کی یہ خواہش تھی کہ مالِ غنیمت کے بارے میں قرآنِ کریم کی رہنمائی کے عین مطابق غنیمت میں حاصل شدہ مال اور اراضی انہی پر تقسیم کردی جائے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ للّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّٰهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(الانفال:۴۱) ’’اور جان لو کہ بے شک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو تو بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن نازل کی، جس دن دو جماعتیں مقابل ہوئیں اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے شروع میں تو یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اراضی مجاہدین میں تقسیم کردیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ اسے تقسیم نہ کیا جائے، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے تھی، حتیٰ کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے خبردار کیا۔ [3]
[1] سیاسۃ المال فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۱۷۴ [2] سیاسۃ المال فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص: ۷۶ [3] سیاسۃ المال فی الإسلام فی عہد عمربن خطاب ، ص: ۶۷