کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 404
’’اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔‘‘ مال اللہ کا ہے اس لیے کہ اسی نے اسے پیدا کیا، نعمت الٰہی کا یہ اعتراف ہی اللہ کے بندوں کے ساتھ نیکی وحسن سلوک کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ [1] اور اسی ایمانی اساس سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے … جن کے دورِ خلافت میں آمدنی کے ذرائع وسیع ہوگئے تھے … ملکی آمدنی کو دیکھا، اسلامی سلطنت نے بڑے بڑے شہروں کو فتح کرلیا تھا، اور مختلف اقوام اس کے سامنے سرنگوں ہوگئی تھیں۔ آپ نے ان قوموں کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کا راستہ ہموار کیا، ان میں سے بعض تو صلح کرکے اسلامی ریاست کے تابع ہوگئیں جب کہ بعض کو نہ چاہتے ہوئے اس کی فرماںبرداری قبول کرنا پڑی، اور پھر ان فتوحات کے نتیجہ میں اسلامی سلطنت کو ایسی زمین ملی جس پر جنگ ومعرکہ آرائی کے ذریعہ سے غلبہ ملا، اور ایسی زمین بھی ملی جسے اس کے مالکان نے بطور صلح ومصالحت اسلامی سلطنت کے حوالے کردیا۔ جب کہ کچھ ایسی زمینیں بھی ملیں جن سے ان کے مالکان کو جلا وطن کردیا گیا تھا، یا وہ سابق حکمرانوں اور جاگیرداروں کی ملکیت میں تھیں۔ ان مفتوحہ ممالک کے عوام میں اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ تھے۔ اس لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کی محکم شریعت کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤ کیا، آپ نے اپنے ملکی مالیاتی نظام کو دیوان ودفاتر کی تنظیم و ترتیب کے ذریعہ سے ترقی دی، خواہ اس کا تعلق ذرائع آمدنی سے ہو، مصارف سے ہو یا لوگوں کے حقوق مرتب کرنے سے ہو۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ملکی آمدنی کے ذرائع جوں جوں بڑھتے رہتے آپ اس کی تنظیم وترقی بھی کرتے رہتے، اور ان کی نگرانی کے لیے افسران وعہدیداران کو مقرر کرتے رہتے۔ چنانچہ اہم ملکی ذرائع آمدنی، اور سرمایہ کاری کے اسباب میں زکوٰۃ، اموالِ غنیمت، اموال فے، جزیہ، خراج اور تاجروں کے انکم ٹیکس شامل تھے۔ آپ نے ان ذرائع آمدنی کو ترقی دینے پر زور دیا اور شرعی مقاصد کو جن میں اولادِ آدم کی مصلحتوں کو مقدم رکھا گیا ہے، سامنے رکھتے ہوئے آپ نے کئی چیزوں میں اجتہاد بھی کیا کیونکہ اس دور میں ایسے جدید حالات وظروف سامنے آتے رہے جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ تھے۔ [2] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کتاب وسنت کے احکامات کو نافذ کرنے میں لاثانی شخصیت کے حامل تھے، کسی چیز میں مسلمانوں کو چھوڑ کر خود کو ترجیح نہ دیتے تھے اور نہ مطلق العنان تھے کہ ان پر اپنی رائے تھوپتے، جب کوئی حادثہ پیش آتا آپ مسلمانوں کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ لیتے، پھر ان کی رائے کے مطابق فیصلہ کرتے۔ [3] بہرحال عہد فاروقی میں دولت کے اہم مصادر وذرائع آمدنی کو یہاں تفصیل سے ذکر کیا جا رہا ہے: