کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 398
کو تقسیم کیا، موسم سرما اور گرما کی جنگی مہموں کے لیے فوجی دستوں کو متعین کیا، شام کی سرحدوں کو بند کردیا، افسران کو ذمہ داریاں سونپیں، عبداللہ بن قیس کو ہر ضلع کے ساحلی علاقوں کا افسر مقرر کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو دمشق کا گورنر بنایا، فوج، جرنیلوں اور عوام الناس کے معاملات کو منظم کیا، فوت شدہ افراد کی میراث کو ورثاء میں تقسیم کیا،[1] اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو لوگوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ بلال کو اذان دینے کا حکم فرمائیں، بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سنی تھی سب رونے لگے یہاں تک کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں، عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے زیادہ رونے والے تھے اور جس نے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان نہیں سنی وہ سب رونے والوں کو دیکھ کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرکے رونے لگے۔ [2] مدینہ واپس لوٹنے سے پہلے آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور کہا: سنو، میں تم پر ذمہ دار بنایا گیا ہوں، تمہارے جن معاملات کا اللہ نے مجھے نگران بنایا تھا میں نے ان شاء اللہ انہیں پورا کردیا ہے، ہم نے تمہارے درمیان تمہارے فے، مکانات اور اموال غنیمت کو کھول کھول کر رکھ دیا، جو ہمارے پاس تھا اسے تم تک پہنچا دیا، تمہارے لیے فوج کو تیار کردیا اور آسانیوں کو تمہیں بہم پہنچایا، تمہارے لیے ٹھکانے کا انتظام کیا، اور جتنا تمہارا مال فے تھا اسے تم کو دے دیا، تمہاری خوراک وغذا کو نامزد کردیا، تمہیں تمہارا عطیہ، روزی، اور اموالِ غنیمت دینے کا حکم دے دیا، لہٰذا جسے مزید کسی چیز کی ضرورت کا علم ہو اور اس پر عمل کرنا مناسب ہو تو اسے چاہیے کہ مجھے اس سے مطلع کر دے ہم اس پر عمل کریں گے، اِنْ شَائَ اللّٰہُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ۔ [3] آپ نے یہ خطبہ مذکورہ نماز سے پہلے دیا تھا، درحقیقت طاعون عمواس مسلمانوں کے لیے ایک عظیم ہلاکت تھی، اس میں بیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، اور وفات کنندگان کی یہ تعداد باشندگان شام کی تقریباً نصف آبادی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اموات کی کثرت دیکھ کر اس وقت مسلمان کچھ سہم گئے، اور روم والوں سے خطرہ محسوس کیا، اور یہ سچ بھی ہے کہ اگر روم والے مسلمانوں کے اس نازک وقت یعنی مجاہدین اسلام کی کمی پر ذرا بھی دھیان دے دیتے اور اسلامی شہروں پر ھلہ بول دیتے تو موجودہ فوج (ریزرو فورس) کے لیے ان کو ہٹانا کافی مشکل ہوجاتا، لیکن چونکہ مایوسی وناامیدی اہل روم کے دلوں میں گھر کر گئی تھی اس لیے وہ مسلمانوں کی محاذ آرائی سے باز رہے، خصوصاً ایسے وقت میں کہ جب اسلامی شہروں کے غیر مسلم باشندے بھی مسلمانوں کی حکومت سے راضی تھے، اپنے عدل پرور حاکم اور اس کی خوش خلقی سے وہ دلی طور پر خوش تھے اور بغیر ان کی مدد کے شاہ روم کے اندر یہ سکت نہ تھی کہ شام کے مسلمانوں پر چڑھائی کرتا، خاص طور پر اگر مذکورہ سبب کے ساتھ ہم اس بات کو بھی دھیان میں رکھیں کہ رومی قوم جنگ سے اکتا چکی تھی، اسے ایسی قوم سے مقابلہ ومحاذ آرائی سے نجات اور مستقل راحت کی تلاش
[1] مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ، ص: ۴۹۰ [2] الاکتفاء: ۳/ ۳۱۰ [3] الکامل فی التاریخ: ۲/ ۱۷۱، ۱۷۲۔ تاریخ الذہبی، ص: ۱۸۱ [4] الفاروق عمر بن الخطاب، محمد رضا، ص: ۲۳۰