کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 397
اجازت مانگی، حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مقیم کی اقامت اسے اس کی موت کے قریب نہیں کرتی، اور نہ بھاگنے والے کا بھاگنا اسے اس کی موت سے دور کرتا ہے، اور نہ اس سے اس کی قسمت کو روکا جاسکتا ہے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ [1] چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا خط امیر المومنین کو موصول ہوا جس میں معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر تھی اور معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سے آپ بہت ہی بے تاب وپریشان ہوئے ، آپ اور دیگر مسلمان رونے لگے، اور اس حادثہ پر بہت غمگین ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ معاذ پر رحم فرمائے، اس نے معاذ کو وفات دے کر اس امت سے بہت زیادہ علم اٹھا لیا۔ بسا اوقات ان کے مشورے بہتر ہوتے تھے اور ہم نے اسے قبول کیا، اور دیکھا کہ ہمیں اس کا بہت فائدہ ہوا ان کے علم نے بہت نفع دیا، اور خیر کی طرف ہماری رہنمائی کی، اللہ تعالیٰ اسے نیکوکاروں کا بدلہ عطا کرے۔ [2] شہرت یافتہ مسلم قائدین میں تیسرے فرد جو طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور بنوسفیان کے سب سے افضل فرد مانے جاتے تھے اور جنہیں یزید الخیر کہا جاتا تھا وہ یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما ہیں۔ نیز طاعون عمواس میں عظیم مسلم جرنیلوں میں جنہیں طاعون کے ذریعہ سے شہادت ملی ان میں شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے۔ [3] ۴۔ عمر رضی اللہ عنہ کی شام روانگی اور وہاں کے معاملات کو منظم کرنا: عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام میں طاعون کی وجہ سے اپنے عظیم جرنیلوں اور شیر دل مسلم سپہ سالاروں کی وفات سے بہت پریشان ہوئے اور آپ کو بہت غم لاحق ہوا، آپ کے پاس بعد میں وہاں کے افسران وذمہ داران کے کئی خطوط آئے، وہ سب شہدائے طاعون عمواس کی متروکہ میراث اور چند نئے معاملات سے متعلق آپ سے پوچھ رہے تھے۔ آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور نئے پیش آمدہ مسائل پر ان سے مشورہ لیا، اور پھر آپ نے عزم کرلیا کہ مسلمانوں کے شہروں میں خود جا کر ان کے حالات معلوم کریں گے تاکہ ان کے معاملات کو منظم کرسکیں۔ چنانچہ مجلس شوریٰ میں لوگوں سے رائے اور مشورہ کرنے کے بعد آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کام کی انجام دہی سب سے پہلے شام سے شروع کریں، اور تقدیم کی وجہ جواز بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ شام والوں کی میراث ضائع ہوگئی، لہٰذا میں شام سے اپنا دورہ شروع کروں گا، ان میں میراث تقسیم کروں گا اور ان کی خاطر جو کرنا چاہتا ہوں کروں گا۔ پھر وہاں سے لوٹوں گا، ہر ہر شہر میں جاؤں گا اور ان کے سامنے اپنی بات رکھوں گا۔ چنانچہ آپ مدینہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ [4] جب آپ شام پہنچے تو عطیات
[1] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۸ [2] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۸ [3] حلیۃ الأولیاء: ۱/ ۲۸۸ تا ۲۴۴ [4] حلیۃ الأولیاء: ۱/ ۲۸۸ تا ۲۴۴ [5] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۹ [6] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۹۵