کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 395
طرف سے آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آپ اس کی رحمت، مغفرت، رضامندی اور جنت سے نوازے جائیں۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔‘‘ [1] جب یہ خط عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ اس کو پڑھ کر رونے لگے اور بہت زیادہ روئے، اور ساتھیوں کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سنائی۔ [2]خبر سن کر سب لوگ رونے لگے اور سب کے سب قضاء وقدر سے راضی رہتے ہوئے بہت ہی رنجیدہ وغمگین ہوئے۔ ۳۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات: ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد چند دنوں تک معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے، ادھر طاعون کی وبا سخت ہوگئی اور لوگوں کی کثرت سے موت ہونے لگی، آپ بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! طاعون کی یہ بیماری تمہارے ربّ کی طرف سے رحمت، اور تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت اور تم سے پہلے صالحین کی موت کا سبب ہے اور معاذ اللہ سے سوال کرتا ہے کہ آلِ معاذ کے لیے اس بیماری سے ان کا حصہ عطا کردے، چنانچہ آپ کے صاحبزادے عبدالرحمن بن معاذ طاعون کا شکار ہوگئے۔ [3] جب آپ نے اپنے صاحبزادے کو دیکھا تو کہا: الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (البقرۃ:۱۴۷) ’’حق وہی ہے جو تیرا ربّ کہے، تو ہرگز ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔‘‘ اور کہا اے میرے بیٹے: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصافات: ۱۰۲) ’’اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والوں میں سے پاؤ گے۔‘‘ پھر تھوڑی ہی دیر بعد آپ کے صاحبزادے وفات پا گئے اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو دفن کیا جب آپ گھر واپس لوٹے تو آپ کو بھی طاعون نے آگھیرا اور پھر رفتہ رفتہ تکلیف بڑھتی گئی، لوگ باری باری آپ سے ملنے آنے لگے۔ جب وہ آپ کے پاس آتے تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے اور ان سے کہتے: ’’عمل کرو، تم مہلت، زندگی اور باقی ماندہ عمر کو کار آمد بناؤ، اس سے پہلے کہ تمہیں عمل کرنے کے لیے تمنا کرنی پڑے اور تم اس کے لیے مہلت نہ پاؤ۔ موت آنے سے پہلے جو کچھ تمہیں میسر آئے اللہ کے راستے میں خرچ کرو، اور اسی حسن عمل کو اپنے بعد والوں کے لیے میراث چھوڑو، اور جان لو کہ تمہارا مال
[1] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۷ [2] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۷